ذات کی تعمیر اور قبولیت

انسانوں میں یہ عجیب خصلت پائی جاتی ہے کہ جو پرندہ پسند آجائے اسے قید کر کے اس کی خوشی چھین لیتے ہیں۔

آج کی تیز رفتا دنیا میں جو چیز عدم براشت کے رویوں کی وجہ سے ناپید ہوتی جاری ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ تعلیم کو تربیت سے جدا کرنے کا خمیازہ بھگتتا یہ معاشرہ برداشت ، حقیقت شناسئ اور قبولیت جیسے اوصاف سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے ۔

ذات کی تعمیر پر قبولیت کے اثرات۔

ہمارے معاشرہ مین انسان خود پر اور اپنے جذبات پر تو قابو نہیں پا سکتا لیکن اپنے سے منسلک لوگوں کی زندگی ، انداز ِزندگی ، بود و باش اور انداز و اطوار کو زیادہ بہتر سمجھنے اور اس کو مزید اپنے انداز سے بہتر کرنے کے خبط میں مبتلا رہتا ہے ، نتیجہ میں اپنے اور منسلکیں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ نہ تو خود کی ذات کی تعمیر کر پاتے ہیں نہ منسلکین کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔

قبولیت کیا ہے؟

قبولیت کو سادہ الفاظ میں “کسی شخص کی پیش آمد واقعات ،اعمال ،حالات کو خواہ اچھے یا برے انکو اپنی راے کے مطابق تبدیل کرنے یا مخالفت کیے بغیر قبول کرنا ہے

قبولیت کا مطلب ہار جانا نہیں لیا جا سکتا بلکہ قبولیت تو حقیقت کو تسلیم کرنا ہے ۔

مجھے باوجود کوشش کے لفظ ‏ایمپتھی (Empethy)‏کی متبادلُ کوئی مناسب لفظ نہ مل سکا،ایک انسان کے لئے ہمدردی سے زیادہ اس کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا زیادہ مددگار ہوتا ہے ۔

بحثیت معاشرہ ہم لوگ قبولیت کے بنیادی وصف سے اس قدر محروم ہو گئے ہیں کہ اپنے اردگرد کی ہر جاندار اور بے جان کو اپنی سوچ اپنے نظریات کے مطانق ڈھالنے میں لگے ہیں، اللہ نے ہر انسان کو الگ شکل وجود اور سوچ کے ساتھ پیدا کیا ہے ، ہر انسان اچھائیوں اور غلطیوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے ، اسکو زور سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تاہم ۔۔۔۔۔۔

‏کسی کی طرف سے مکمل طور پر دیکھا جانا، اور کسی بھی طرح سے پیار کیا جانا –

 یہ ایک انسانی نزرانہ ہے جو معجزے برپا کر سکتا ہے.

‏الزبتھ گلبرٹ‏

ہر انسان الگ ہے۔

ہر انسان لیڈر نہیں بن سکتا ، ہر انسان محقق نہیں بن سکتا ، ہر انسان وہ نہیں بن سکتا جو آپ ہیں ۔۔

مسلسل تبدیلی کی مشقت آپ کو آپ کے اپنوں سے دورکرنے لگتی ہے، تبدیلی ہونی چاہیے ، لیکن ‏ہمدردی ‏کے بنیادی اصولوں کو سمجھ کر ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قابو میں رکھنا بڑی طاقت مظہر ہے۔ 

روکنا ہی محبت نہیں جانے دینا بھی ہے

تاہم، ایسے وقت آتا ہے جب یہ جاننے میں بہت زیادہ قوت درکار ہوتی ہے کہ کب جانے دینا ہے اور کب روکنا ہے۔۔۔

ہر پتھر سنگ تراشی میں استعمال نہیں ہوتا ، ہر پتھر کو تراش کر گلے کا ہار نہیں بن سکتا ، ہر فولاد کو موڑا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔

اسی طرح زندگی میں جو پیش آمد حالات اٹل ہو کر سامنے آتے ہیں ۔

 باعث تکلیف ہوتے ہیں ان کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے جتنی جلدی قبول کرلیں کرب سے نکل کر صحت مندی کی طرف چل پڑتے ہیں۔

زندگی قدرتی اور بے ساختہ تبدیلیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ 

ان کی مخالفت یا قابو کرنے کی کوشش صرف غم اور تکلیف پیدا کرتی ہے۔ حقیقت کو حقیقت بننے دیں۔ چیزوں کو قدرتی طور پر آگے بڑھنے دیں ۔۔۔۔

کیونکہ جب بارش ہو رہی ہو تو سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ بارش ہونے دی جائے۔

‏ہنری ویڈس ورتھ لانگ فیلو‏

خود کو قبول کریں

اسی طرح فرد کا خود کو قبول کرنا شائد سب سے ضروری ہے ، خود کو قبول نہ کرنا احساس کمتری کا باعث بنتا ہے ،

ہر مقابلہ ہر شخص کے کرنے کا نہیں ہوتا ، ہر دوڑ ہر شخص کے لئے نہیں ہوتی، اپنے آپ کو پہچانننا ، مانُ لینا اپنے سکون کے لیے بہت ضروری ہے ۔۔۔

اگر آپ کسی کے لیے ضروری ہیں تو آپ کی غلطیاں ان کے لیے معنی نہیں رکھتی اور وہ لوگ جن کے لیے آپ کی ذات سے ذیادہ اہمیت اپ کی ذات سے جڑی دیگر باتوں سے ہے ،ان سے ایک فرد کو متاثر ہو کر خود اذیتی کے سواکچھ حاصل نہیں کر سکتا۔۔۔

زندگی اک ہی بار ملی ہے ، اپنی سمجھ کر جیئں،قبولیت ذات کی تعمیر کی پہلی سیڑھی ہے۔

آپ کو ایسا رقص کرنا ہوگا جیسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے،‏

‏محبت جیسے آپ کو کبھی تکلیف نہیں پہنچے گی،‏

‏ایسے گائیں جیسے کوئی نہیں سن رہا،‏

‏اور زمین پر آسمان کی طرح زندگی بسر کرو۔‏

 

‏ولیم ڈبلیو پرکی‏

Naveed

I am an ordinary man.

Related post