باب پاکستان

موڑوے سے میٹرو بن گئی لیکن بدنصیب پاکستان کا باب نہ بنا

پاکستان کی اایک تاریخی بلڈنگ ہے …..

تاریخی اس لیے کہ اس کے ساتھ تاریخ وابستہ ہے۔

پاکستان کا نقشہ بدل گیا, سڑکیں شہر سب بنے لیکن بلڈنگ پوری نہ ہو پائی۔

ایک میدان ,بہت بڑا خالی گراونڈ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں، اور رات کو اندھیرے میں نشئی موالیوں کی پناہ گاہ…..

یہ میدان پاکستان کی برائے نام آزادی کے وقت ان خاندانوں کی رہائش گاہ تھا۔ جن خاندانوں نے پاکستان نامی خواب کے پیچھے اپنے بھرے گھر لٹا دئیے

کوئی خاندان آدھا پہنچا اور کسی کا ایک فرد.سامان تو “پاکستان” تھا بیس لاکھ جانیں اور چالیس گھر دے کر ایک خطہ پاکستان نامی لیا تھا۔

جس کی بنیاد مدینہ کی ریاست پر تھی

پاک سر زمین کا نظام قوت اخوت عوام

قومی ترانے کی یہ سطر اخوت بتاتی ہے جو مدینہ کی ریاست کی بنیاد تھا

کھبی سوچا کہ اج تک الجھے ہوئے ہیں بھٹک رہے ہیں کہ ان بہنوں کی سسکیوں کو بھول گئے ہیں

جنہوں نے سکھوں کی نسلیں جنی تھیں۔

وہ لاشیں ہمارے چھوٹے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کی ہونگی جو پڑی رہیں ویرانوں میں اور کھانے والے جانور بھی کم پڑ گئے

اس نامکمل بلڈنگ کے کھنڈرات کے اندھیرے سائیوں میں روحیں سسکیاں دباتی اور کھبی چلاتی ہیں جنکی اجتماعی قبریں ہماری گمشدہ عزت و غیرت کو بچاتے کنووں میں قرار پائی

باب پاکستان نامی یہ بلڈنگ شائد اسی لیے نامکمل رہی کہ پاکستان کا آزاد ہونا باقی ہے۔

اگر اپ آزادی کی تعریف خود کو سنا سکتے ہیں تو اپ آزاد ہیں.

کھبی سوچا ہے، مرنے کے بعد جنت کی تمنا تو کرتے ہیں.

لیکن جو جنت ہمیں دی گئی اسکو اپنی ہوس اور گدھ خصلت سے جہنم بنا دیا.

شائد آج کی حالت انہی بہنوں کی سسکیوں کا نتیجہ ہے.

ہمیں نے ہمیشہ سے چند غیر ملکیوں کے لیے اپنوں کے سر جھکائے ہیں ۔

اس خطہ میں بسنے والے لوگوں کی نفسیات ہے.

انکو سر جھکانے کی عادت ہے۔

کھبی پتھر کو خدا کر کے۔

کھبی اپنے جیسوں کو اپنے سے بلند کر کے۔

بے بس اور لاچار رہنے کی علت۔

ایک اصول دنیا میںان اجاتا ہے،

“اپکے ہمسائے کے گھر اگر اگ لگی ہے تو آپ خود کو سُکھی نہیں رکھ سکتے۔ اگ اپ کے گھر میں ائے گی۔ “

ہم نے دیکھا ہے افغانستان کو جلا کے۔

ہم نے دیکھا ہے کے پی اور بلوچستان کو جلا کے۔

غیر ملکی افراد چلے جائیں گے اپنی بقا کا فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے ۔

یہ گھر ہے میرا اور اپ کا اور گھر سے آگے     ” جانا کہاں ہے”

کیا لگتا ہے رہ لو گے ،

اصول ہے

جو بھول جاتے ہیں

وہ بھلا دیے جاتے ہیں۔ 

Naveed

I am an ordinary man.

Related post