غلامی کی زنجیریں
زنجیریں
نظر انے والی غلامی کی زنجیریں سوچ کی پرواز نہیں روکتی ، جو نظر نہ آئیں تو ٹوٹیں کیسے۔۔
…ہم الباکستانیوں کا دنیا میں اک الگ ہی مقام ہے
ہم تمام لوگ اس تجربہ سے گزرتے ہیں شیو کر رہا باربر ملٹری ساہنسز سے لے کر خلائی دریافتوں اور تصوف سے کر تفسیر تک ہر علم پر راۓ دینے پر تیا ر رہتا ہے ۔۔
اور حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے انجینیر ڈیم بنائیں تو پھٹ جاتے ہیں ، ٹنل ڈوب جاتی ہے ، پورے ہورے میگا پرا جیکٹ جو قرضہ لے کر بناۓ ناکام ہو جاتے ہیں، منصوبہ بندی ایسی کہ ہر منصوبہ خون چوسنے والی جونک بن جاتا ہے۔۔۔۔
میڈیا کی اثر پزیری
سارا سارا دن سیاسی گفتگو، ٹی وی چینل تو گویا آش فشاں بنے بیٹھے ہیں ، لیکن میں حیران رہ گیا ہوں کیسے ملک دیوالیہ ہوتے ہوتے بچ گیا ہے ۔۔۔
فروری کی وزارت خزانہ کی ماہانہ رپورٹ میں پاکستان پرائیوٹ سیکٹر سمیت تقریبا 33 ارب ڈالر کا سرمایہ رکھتا تھا ۔ اچانک حالات بدلے آندھی چلی غلغلہ اٹھا اور اک سوچ چند ہی دنوں میں ہر فرد کی آواز بن گئی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے ، وہ پاکستان جس نے جولائی سے مارچ تک 9.5 ارب ڈالر قرضہ واپس کیا جس میں سے 2.7 ارب ڈالر جنوری سے مارچ کی عرصہ میں واپس کیا ، کہاں دے کیا الگ بحث۔
اسی بیانیے کواس شدد سے اپنایا گیا کہ ہر فرد پریشان ، لمحہ با لمحہ IMF سے بارگین کی رپوٹنگ ، وہ بھی سیانے ، جو پچھلی حکومت نے حالات بہتر ہوتے لفٹ کروانا بند کر دی تھی حساب برابا کیا ۔۔۔۔۔
میں آج تک نہ سمجھا ہوں کہ تقریباًٍ دس ارب ڈالر sbp اور چھے ارب ڈالر پرائیوٹ سیکٹر میں ہونے کے باوجود دیوالیہ کیسے ، اگر چند ارب شوشا کے لیے رکھے ہیں انکو نکال کر بھی دیکھ لیں جس ملک کی کل دولت کا اندازہ 1.468ٹرلیں ڈالرہو اور بیرونی قرضہ 84.6 ارب ڈالر ہو، دنیا کی 24 بڑی معیشیت ہو” ڈیفالٹ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شور اٹھا مشکل فیصلوں کا شائد اب کچھ ہو جو فیصلے لیےجو ہوا الگ ہی مقامِ صبر ہے۔
اور پھر معجزہ سا ہوا Imf نے کمال مہربانی کرتے 1.7 ادب ڈالرجاری کر دیۓ ،ہر طرف سکون چین امن ہوگیا ۔
نعرہ مستانہ بلند ہوا ہم اب مشکل وقت سے نکل
اس دوران جو مزید واقعات و معاشی معاملات ہوے نہیں لکھ جو ذلالتیں کمائی سب کو علم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آے ہیں آگے راحت ہے ۔۔۔۔۔
عام آدمی تک کے چہرے پر ہلکا سا سکوں آیا ہے
MODREN WAY OF DOING THINGS.
وازنہ اور سوال ایسی چیزیں ہیں مہینوں کی گھتی منٹوں میں سمجھا دیتی ہیں ، دنیا میں خوش رہنے والے ملکوں میں موازنہ کریں تو ٹاپ کے ملک جان کر حیران رہ جائیں گے تمام یورپی چھوٹے ممالک امیر بھی کوئی خاص نہیں
Finland
Denmark
Iceland
Switzerland
Netherlands
Luxembourg
Sweden
Norway
اور یہ خوش اس لیے ہیں انکی حکومتیں انہیں خوش رہنے دیتی ہیں
ایک سادہ سوال
کیا عوام کی مرضی سے غدر ثانی برپا ہوا ؟
کیا عوام ڈالر راتوں رات بڑھا سکتی ہے؟
کیا اگلے فیصلے عوام کی مرضی سے ہونے ہیں؟
عوام کی راے یا دلیل آپ کے لیے اہمیت رکھتی ہے ؟
کیا1.7 ارب ساری مشکلوں کا حل ہے؟
کیا آپکو تمام حالات معلوم نہ تھے ؟
کس طرح ہڑبونگ برپا کرکے پہلے کیرسین شارٹ فال اور پھر گیس عوام کچھ کر سکتی تھی؟
پوری دنیا میں مذاکرات ، بارگین ، بحث ، مکالمہ ایک سائنس کا درجہ رکھتا ہے لوگ اس میں ڈگریاں لیتے ہیں ،
جیسے عید پر منڈی جاتے محلے کا ایک سیانا ساتھ لے کے جاتے ہیں ، ریٹ ودیا کردا ۔۔۔۔۔
جس طرح حکومت نے imf سے مذاکرات کی لمحه بالمحله رپوٹنگ کروائی , ریڑھی بان تک اس اذیت اور پریشانی سے گزرا بیان نہیں ۔۔۔
سوچیں بکرا خریدتے لمحه با لمحه گھر مسیج کرنا اپڈیٹ دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوپاری کا بلف پھر آپکا ریٹ لگا کر جانے کا ارادہ رکنے کی نیت سے۔۔۔
جو ملک خوش ہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور رکھنے دیتے ہیں سیاست اور دیگر معاملات جتنے ضروری ہوں صرف اتنے ،
یہا ں مکمل منصوبہ بندی سے اس قدر کنٹرولڈ ریاستی سطح پر ظلم کہ جیسے پاکستان کے سارے دکھوں کا مداوا صرف Imf …..
کیسے کر لیتے ہیں یہ سب۔۔۔۔۔۔
مشکل فیصلے
شکل فیصلے لیں ۔۔۔۔۔
10 ٹاپ جرنیلوں ۔ 10 سیاست دانوں اور دس بیوروکرٹس کے اثاثے ضبط کر لیں ڈیفالٹ سر پر ہو کیا جا سکتا ہے ، رسیداں وکھاؤ لے جاو ۔۔۔کیا ممکن ہے ، کبھی ایسا ہوا ہے
ابھی چند دن پہلے
افغانستان کے اثاثے ضبط ہوے
روسی بزنس مینوں کے مکمل قانونی اثاثے فریز ہوے
یہ لمحہ با لمحہ رپوٹنگ ، اک اذیت بن کر سوسائٹی کو کھا گئی ہے ہر شخص ۹۰% اضافی پریشانی اٹھاے پھر رہا ہے۔اور دماغ اسقدر معاوف ہو چکے ہیں کہ جب چاہو جدر موڑ لو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب ۔
پہلے بولو دیوالیہ نیند اڑا دہ ۔۔۔۔
پھر ایک ڈالر کماے بغیر کہہ دو بچ گئے بچ گئے
دنیا کے کسی ملک میں جو خوش رہنا چاہتے ہیں ، پالیسی میٹر صرف متعلقہ لوگوں تک رہتے ہیں ، اور ہمارا ہر فرد ہر ادارے کا یہ حال ہے اپنا کام اتا نہیں اور باقی تمام علوم پر دسترس ، مجھ جیسا بندہ بھی معیشت پر مشورے دے رہا ہے ۔
اس قدر ہماری سوچیں انکی غلام ہو چکی ہیں دیوالیہ سے بچ گئے ایک رات میں بدلا گیا اور عام آدمی تک اثر پزیر ہوا ۔۔۔۔
لوگ مسکرانا بھول گئے ہیں ، ترس کھائیں ان پر تمام سیاسی ہارٹیاں اور سیاسی انجیرنگ یورنیورسٹی والے ، لوگوں کو ہنسنے دیں ۔۔۔۔ آپس میں لڑیں مریں اتنی اذیت ناک زندگی کیوں بنا دی گئی ہے ،
کبھی تجربہ کریں کسی چوک میں کھڑے ہو کر ۵ فرد گنیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ اور سکون ہو ۔
ان دیکھی زنجیروں میں ہم آزادی کی دعوے دار ۔۔۔ اک ریوڑ بن کر رہ گئے ہیں اک۔ چرواہا دور سے حکم دیتا ہے بند دماغوں کے ساتھ ادھر ہی چل پڑتے ہیں ۔۔۔
دانشوروں کی سوچین بنجر ہونے لگی ہیں ، لکھاریوں کے قلم بد دیانت ہو گئے ہیں، طالب علم اب طالب نہیں رہا ، قاضی قوت فیصلہ کھو چکے ہیں ، یاد نہیں کسی ایسی کتاب کا ذکر کب سنا جس کی عالم میں دھوم ہو ۔ کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ مارکیٹ میں نئی کتاب ائی ہے۔
پوریے منظم اور جدید طریقہ کار کا بروے کار لا کر کسی کو مذہب ، سیاست ، ذاتی مفاد اور کئی بہانے دیگر معاملات میں ایسا رنگا اور دماغ کہیں اپنی مرضی نہ کر لے اس قدر فیڈنگ کہ زندہ لاشیں پھرہی ہیں۔۔۔۔
اس قدر کمزور حافظہ اور کنٹرولڈ سوچ کر دی گئی ہے
کوئی بھی ادارہ فرد 24 گھنٹوں میں آڈیو ویڈیو میں الجھا کر اپچھلے پراپوگنڈے کو اپڈیٹ کر دیتا ہے
منظم فیڈنگ کا کمال دیکھیے آج ہر آدمی کا نظریہ بن گیا ہے قرضے ترقی نہ ہونے کو ظاہر کرتے ہیں ، ہم قر ضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں ،
کبھی دیکھیں تو دنیا میں سب سے زیادہ مقروض کون ہے ۔۔
امریکہ 30.4 ٹرلیں
چائنا 13 ٹرلین
انگلینڈ 9.02 ٹرلین
فرانس 7.32 ٹرلین
جرمنی 5.74 ٹرلین
ہمرا قرضہ نہیں نااہلی، چوری ، ہماری سوچ ہمارے دشمن ہیں۔
زرعی ملک کا لالی پاپ لئے پھر رہے ہیں ، جتنے ایک موبائل ایک فیملی کے پورے سال ک گندم ، صنعت، حرفت ،ٹیکنالوجی ،اصل طاقت ہیں معیشت کی ۔۔
سوچیے
۳ ماہ پہلے کس بحث میں تھے ، کیا نتیجہ نکلا
چھ ماہ قبل کیا کہانی تھی کیا بنا
ا سال بل کیا مسئلے تھے کیا ہوا
اب جو غلیظ سیاست کی آندھی ہے کوئی ایک بھی الزام آڈیو ویڈیو منطقی انجام تک گئی
شائد جدید دور کی غلامی یہی ہے، سوچوں سےرویے بنتے ہیں اور نسلیں غلام کر دیتے ہیں ، شاز ہی کبھی سنا کہ پھڑھائی کا مقصد نوکری کے علاوہ کوئی ہے ۔
نوکری ۔۔۔۔۔۔ نوکر ۔۔۔۔ ملازم۔۔۔۔۔ غلام
۔
آزادی سوچ میں ہوتی ہے اور غلامی بھی