دہشت گرد

یہ تو سب نے سنا ہو گا کہ پاکستان میں رائج ایم پی او یا مینٹیننس آف پبلک آرڈیننس, بدنام قانون رولٹ ایکٹ کی بنیاد پر بنا اور قائد اعظم نے اس قانون ساز کونسل سے استعفا دے دیا تھا، مہاتما گاندھی نے اس قانون کا نام کالا قانون رکھا اور اس کے خلاف پہلی ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی۔

یہی قانون جلیانوالہ باغ جیسےاس سیاہ باب کی بنیاد تھا،جس کو آج تک برطانوی بار بار معافی مانگ کر کر بند کرنا چا ہتے ہیں۔۔

رولٹ ایکٹ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی جگہ نافذ کیا جانا تھا۔  ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ بالکل آج کے سیاسی حالات کی طرح ایک ہی نشست میں اجتماعی طور پر اتفاق رائے سے پاس ہوا ۔ اور صرف چار سال بعد اس قانون نے تحریک آزادی کی بنیاد رکھ دی۔

آزادی اور غلامی کا فرق اس قانون کے نفاذ نے سمجھایا۔

ریاستی جبر اور ریاستی رٹ

سوال ہے، دہشت گردی کا قانون ملک کے اندر کیسے آ گیا؟

دہشت گردی کا قانون کیوں ملک میں نافذ ہونے دیا گیا؟

کوئی اپنے لوگوں سے کیوں دہشت زدہ ہوتا ہے؟

کوئی اپنے لوگوں کو کیوں دہشت گرد کہے گا؟

کیا ہر دہشت گرد اس ملک کا شہری تھا ؟

اگر تھا تو کیا ریاست نے اس کے پید ا ہوتے ہی، بنیادی صحت کی سہولیات کی ذمہ داری ادا کی ؟

کیا ریاست نے اسکو بچپن میں کم از کم مطلوبہ معیاری خوراک دی ؟

کیا ریاست نے اسکو اسکا حق معیاری بنیادی تعلیم دی ؟

کی ریاست نے اسکو سکیورٹی دی ؟

کیا ریاست نے اسکو مطلوبہ کاروباری ماحول مہیا کیا؟

کھبی سوچا، کیوں ریاست سے کسی کو محبت نہیں ہے،؟ 

اگر یہ سب نہیں کیا تو پھر ریاست کو کس نے حق دیا کہ اپنے حقوق کی بات کرنے والے پر طاقت کا بیہمانہ استعمال کرے؟

یہی فرق ہے ریاستی رٹ اور ریاست جبر میں۔

دہشت گرد فرد نہیں ریاست ہے جو دہشت کے دم پر قائم ہے،

دہشت گرد

دو لڑکے ہم عمر ایک ساتھ گلی میں کھیلتے، ایک چاچے حمیدے فروٹ والے کا بیٹا اور دوسرا باو بشیر کا بیٹا ۔۔

چاچے حمیدے کا بچہ پڑھ نہ سکا سرکاری سکول میں استاد آنا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ باو بشیر کے بیٹے نے پرائیوٹ سکول سے ڈگری کر لی اور افسر بھرتی ہو گیا۔

چاچے حمیدے کے بیٹے کو نہ تعلیم مل سکی نہ کوئی کاروباری موقع ملا آوارہ پھرتے جوان ہوا کھبی روٹی کی خاطر ایک جماعت کھبی دوسری تنظیم۔۔

وقت بدلا تو ریاست نے اسکو دہشت گرد قرار دیکر اسکی لاش چوراہے میں رکھ دی کہ عبرت رہے۔۔۔۔

اسکی زندگی میں ریاست کے پاس اسکو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا لیکن اسکو مارنے کا آہریشن 2 

کڑوڑ میں ہوا۔

تاریخ کا سبق

امریکہ نے یہ سبق سیکھا، اپنی نسلوں کو ہمیشہ مقصد دے کے ایک دشمن کے خلاف متحد رکھا،ہم نے بھی اہسا ہی کیا لیکن اپنے بچوں کو اپنے ہی مروا کر ،لڑوا کر

جبری قوانین کا عکس

  • Protection of State Security Law (Egypt)
  • Anti-Terrorism Law (Saudi Arabia)
  • Internal Security Act (Singapore)
  • Public Order and Security Act (Zimbabwe)
  • Law on Associations (Russia)
  • Counter-Terrorism and Border Security Act (United Kingdom)
  • Public Safety Act (India)
  • Anti-Terrorism Act (Philippines)
  • Defense of India Act (1915)
  • The Rowlatt Act (1919)
  • The Indira Gandhi-imposed Emergency (India)
  • The East Pakistan Rifles emergency (Bangladesh)
  • The Armed Forces (Special Powers) Ordinance (Pakistan)
  • The Prevention of Terrorism Act (POTA) (India)
  • The Armed Forces (Special Powers) Act (AFSPA) (India)

جبر کے قوانین کا دنیا بھر میں جائزہ لیں تو بہت دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ 

یہ قوانین تمام کے تمام انسانون کی بھلائی کے لیے بنائے گئے اور انکے نام بھی بہت خوبصورت اور اچھائی کا تاثر دیتے ہیں۔

یہ قوانین ہمیشہ طاقتور طبقات نے کمزور اور غریب طبقات کے خلاف استعمال کیے۔

کھبی سوچیے گا تمام دہشت گردوں تعلق چھوٹے اور ٹوٹے گھروں سے کیوں ہوتا ہے؟

یہ قوانین ان لوگوں کے خلاف استعمال ہوئے ، جن لوگوں کو پہلے ہی کوئی بنیادی حقوقِ میسر نہ تھے ،انہی کو مزید کچلا گیا۔

یہ قوانین جب بھی نافذ ہوئے ، آسودگی میں رہنے والوں نے خوش آمدید کہا لیکن بعد ازان یہی قوانین ان پر بھی آزمائے گئے اور صرف خون ہی خون بہا۔

پوری دنیا میں کوئی سا بھی ایمرجنسی کا قانون چن لیں یہی نتائج سامنے آئیں گے۔

پوری دنیا میں جو لوگ بھی ان قوانین کا شکار ہو کر مارے گئے انکے مطالبات بنیادی انسانی حقوق اور آزادی تھی۔

کھبی کسی نے ڈیفنس کی کوٹھی اور گاڑی کے لیے مزاحمت نہیں کی۔

وطن عزیز کو ہی دیکھ لین جہاں بھی آئین معطل ہوا، ایمرجنسیاں لگی یا قانون لپیٹ دیئے گئے ، ایک طبقہ ہمیشہ مٹھائیاں تقسیم کرتا ہے لیکن معاشرہ لوگوں سے ملکر بنتاہے، قبرستان میں کوئی خوش نہیں رہ سکتا۔  سب ایک ایک کر کے نشانہ عتاب بنتے ہیں۔

 

کے پی کے سے پٹھان کا بچہ صرف 10 روپے لیکر آپکی جوتی پالش کرنے کیوں آتا ہے۔

بلوچستان اور کے پی میں کیوں کوئی انڈسٹری نہیں لگتی۔

 

کل تک کے پی اور بلو چستان میں ریاستی جبر عروج پر تھا سکیورٹی کے نام پر پنجاب خوش تھا۔ اج پنجاب کی باری ہے،۔

Questioning Britain's Brutality
Unmasking the Shadows , British Brutal laws

جرمنی اور ایمرجنسی قوانین

جبر کے قوانین ک ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آخر کار سب کو لے ڈوبتے ہی۔

دنیا میں کئی مثالیں ہیں جرمنی کی مثال سب سے اول نمبر پر ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی نے 200 مرتبہ ایمرجنسی لگائی جس کا نتیجہ معیشیت کا تباہی اور ہٹلر تھا،

دور کیا جانا بلوچستان اور کے پی میں بھی ہمیشہ ان اقدامات کی حمایت کرنے والے موجود رہے ہیں آج انکا معیار زندگی پوری کہانی سنانے کو کافی ہے۔

تحریک آزادی ہند کی بنیاد

ڈیفنس آف انڈیا ائکٹ کے تحت جنگ عظیم اول کے اختتام تک نظر بند افراد کی تعداد 705 تھی اور 99 قید تھے۔

 1400  افراد کو سخت اور 300 افراد کو معمولی سزائیں سی گئی۔ اس ایکٹ میں بھی سیاسی مخالف ہی کچلے گے پنجاب ور آسام بنگال ہی زیادہ متاثر ہوئے۔

سوچتا ہوں اگر گاندھی جی اور قائد کہیں عالم ارواح میں ملتے ہوں گے تو نظریں چراتے ہوں گے۔

3 ہزار افراد متاثر ہوئے تو تحریکیں چلا دیں۔ اور آج گنتی کرنا بھی ممکن نہیں۔۔۔۔۔

انہی قوانین کو استعمال کرتے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگ مار دئے گئے،  حقیقی آزای کوئی آسمانی چیز نہیں ۔۔۔۔

حقیقی آزادی

بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کا نام ہی حقیقی آزادی ہے۔

چاچے حمیدے کے بیٹے کی لاش پھٹے کپڑوں کے ساتھ گندی داڑھی اور ٹوٹی چپل کے ساتھ عبرت دیتی ہے، کہ ہم کھبی انگریزوں یا امریکہ کے غلام نہیں تھے ہم سب اپنے جیسوں اور اپنی مادی خواہشوں کے غلام ہیں۔ 

جس دن حمیدہ فروٹ والا کشمنر کے دفتر عزت پائے گا، تھانیدار کو یاد رہے گا کہ وہ ملازم کس کا ہے۔اس دن کسی کو جبر کے ساتھ ریاستی رٹ نہیں نافد کرنا پڑے گی، عوام خود کھڑے ہوں ،

 یاد رہےگھر سے آگے کوئی گھر نہیں ہوتا اور گھر کو اچھا یا برا ہم خود بناتے ہیں۔

ببول کا درخت اگائیں گے تو دھوپ میں کدھر جائیں گے۔

Play Video about hqiqi azadi defined in a person defining ha haqiqi aadi

Naveed

I am an ordinary man.

Related post