دشمن کے بچوں کوپڑھانے والے

ریاست مدینہ اورآرٹیکل چھ

مزید پڑھیں چندریان کا گیان ایک ملاقات کا واقعہ اس میں بھارتی سیٹلائٹ چندریان کم اوازنہ پاکستانی ٹیکنالوجی سے کیا گیا چند سطروں میں <!--

ایمرجنسیاں

پوری دنیا میں ہر ملک نے ہنگانی حالات سے نمٹنے  کے لیے خاص قانون بنا رکھا ہے۔ انکو بایمرجنسی لاز کہا جاتا ہے۔ کیا ہیں یہ

دشمن کے بچوں کوپڑھانے والے

ریاست مدینہ اورآرٹیکل چھ September 6, 2023 مزید پڑھیں چندریان کا گیان ایک ملاقات کا واقعہ اس میں بھارتی سیٹلائٹ چندریان کم اوازنہ پاکستانی ٹیکنالوجی

بہاولپور یورنیوسٹی فحش مواد سکینڈل کے اندیکھے حقائق

بہاولپور فحش ویڈیو سکینڈل میں شرمناک ریاستی کردار اور پولیس کی بے حسی چند اندیکھے پلو جو آپکو سوچنے پر مجبور کر دیں گے۔

ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھا ہے، یہ بات امریکیوں پر پورا اترتی ہے۔

امریکی ایک قوم یی اور قومیں اپنے دامن پر لگنے والے دعووں کا خیال رکھا کرتی ہیں، ہر نسل کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آنے والی نسل کو کچھ اچھا تاثر یا کچھ اچھی یادیں دے۔

امریکہ جب افغان جہاد کے بعد واپس گیا،تو پوری دنیا میں امریکہ پر نقطہ چینی کی گئی،افغان جہاد کے بعد مجہادیوں کو بغیر ان کو معاشرہ میں جذب کیے، انکے مسائل حل کیے اپنا کام ہونے پر فضول سمجھ کر چھوڑ آیا ۔

امریکیوں کے بارے ایک مقولہ ہے،

American way of doing things.

ایک رائج سوچ کہ” امریکی اپنا کچرہ پیچھے نہیں چھوڑتے”

افغان مجاہدین کو بھی اضافی کچرے کے طور پر، فالتو بچ جانے والے سامان کے طور پر ڈیل کرنے پر امریکہ پر شدید تنقید ہوا کرتی،
جیسے ہی امریکہ 2002 میں واپس آیا تو جہاں ایک طرف اس نے تورا بورا پر بم برسانے شروع کیے،وہیں پشاور کے پرنٹنگ پریسوں کا رخ کیا۔ امریکی ٹیمیں پشاور کے پرنٹنگ پریسوں میں ڈیرا جما کر بیٹھ گئی اور ایک انتہائی جامعہ اور مفصل چھان بین عمل میں لائی گئی۔ 

امریکہ نے صفائی کا کام شروع کر دیا، لاکھوں کتابیں ری پرنٹ ہوئی کتابوں سے ہرممکن طریقے سے بارودنکالا گیا۔ تمام ایسے فقرے واقعات تشہات الفاظ اشارے جو کہ افغان جہاد کے وقت کتابوں میں داخل کیے گئے نکال دئے گئے۔ کیونکہ یہ کتابیں پاکستان میں چھپتی تھیں، روس کے تباہ ہونے اور امریکہ کے واپس جانے کے بعد بھی ان کتابوں کا استعمال پاکستان اور طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں بھی جاری رہا۔
طالبان نے یہ تبدیلی ضرور کی کہ قرآ نی آیات اور الفاظ استعمال کرنا شروع کردئے، طالبان نام کے طالب ہیں، لیکن علم کی طلب نام کو نہیں۔

کابل کی نیشنل لائبریری 1932 میں بنی،خطہ میں اپنی مثال آپ تھئ، روس کی جنگ میں بچ جانے والی لائبریری طالبان کے ہاتھوں برباد ہوئی۔

زہریلی کتابوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف پوری دنیا کی فوجیں افغانستان پر بمباری کر رہی تھیں وہیں, پر اس کام کو اتنا ضروری سمجھا گیا کہ افغانستان فتح کرنے سے پہلے ہی اس پر کام شروع کر دیا جائے, 40 لاکھ کتابیں بھجوائی گئی لیکن یہاں کیونکہ افغانستان میں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی تو امریکہ نے دوران پرنٹنگ اسلامی ایات کو اسلامی ایات سے بدلا یا رہنے دیا چھوڑ دیا، کہیں اساتذہ مذہبی بنیادپربائیکاٹ نہ کردیں۔
جس پر امریکی ایوان نمائندگان اور ملک کی میڈیا میں شدید تنقید ہونے لگی کیونکہ امریکی ٹیکس پیئرز کا پیسہ کسی مذہبی یا ترویج پر استعمال نہیں ہو سکتا جس کے لیے جارج بش کو ریڈیو پر ا کر اپنی قوم کو صفائی بھی دینی پڑی اور تفصیلات سے بھی اگاہ کرنا کہ معاملہ مذہبی نہیں ہے۔

اس نے کہا کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ 

جو فصل امریکہ نےبوئی اسی نے کاٹی ، امریکہ کا یہ منصوبہ 51 ملین ڈالر سے شروع ہوااور یہ پروجیکٹ 296 ملین ڈالر سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اسے ناکامی ہوئی کیونکہ ہم یہ کتابیں اپنے بچوں کو پڑھانا شروع کر چکے تھے۔

 

ان کتابوں کے طریقہ کار کار اور گہرائی کے لیے پرھیے

Educational System of Pakistan 

The Dark Side

Naveed

I am an ordinary man.

Related post