معاشی بارودی سرنگیں
پنجاب میں ایک سوچ پائی جاتی ہے زمینداروں کی ، کمی کمینوں کو روٹی پیٹ بھر میسر آنے لگے تو اوقات سے باہر ہو جاتے ہیں۔
کمی کمینوں کی روٹی چھیں لینے کی کہانی،معاشیی بارودی سرنگیں اور ہماری اس پر واہ جی واہ
الفااظ ہماری سوچوں اور ارادوں کا عکس ہوتے ہیں، اور خاص کر ایسے معاشرہ میں جہاں شخصی آزادی اور انصاف ڈھونڈنے سے نہ ملے ، کوئی بھی نیا لفظ اک نئی کہانی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس وقت پاکستان کی معاشی حالت کو ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کرتے کمزور اور خطرہ میں بتایا گیا اور سابقہ وزیراعظم عمران خان کے پٹرول کی قیمت کو فکس کرنے اود دس روپے کی سبسڈی کو” معاشی بارودی سرنگیں” قرار دیا گیا۔
معاشی بارودی سرنگیں
نئی حکومت آتے ہی ایک زور دار ڈھول بجایا گیا کہ” نا تجربہ کار حکومت“ نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کر دیا ہے، اب تجربہ کاروں کو لایا گیا ہے کہ معاملات کو سھنبال سکیں۔
یہاں یہ بات یا رہنی چاہیے کہ کچھ بھی یک سمتی نہیں ہوتا ایک ہی وقت میں بہت سے محرک وقوع پزیر ہو کر حالات کو توقعات کے بر عکس نتائج سے بدل دیتے ہیں۔
9 اپریل کو عدم اعتماد کا ووٹ کاسٹ ہوا اور اگلے دن پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار شہباز شریف صاحب نے حلف اٹھایا۔
اور پہلے احکامات میں سے سب سے ضروری 7 کڑوڑ سے سوئمنگ پول کی مرمت اور تمام ذاتی محلات کو سرکاری کیمپ آفس قرار دینا تھے۔ انٹر نیشنل مارکیٹ میں پاکستان کی انوسٹمنٹ ریٹنگ منفی ہو گئی۔
پاکستان میں مالی سال 2023 میں 90 فیصد تک موبائل فون پاکستان میں بننا تھے ، 24 گھنٹے مسلسل چلنے والے یونٹ 3 ماہ تک بند رہے اور فیکٹری مالکان ملازمیں کو تنخواہیں دیتے رہے ، سردیوں میں خوردنی تیل کی کھپت کم ہونے پر ایک تاجر نے پریس کانفرنس کی جو کہ نیم سرکاری میڈیا میں جگہ نہ بنا سکی۔
سردیوں میں گھی کی کھپت کم ہونے کا مطلب غریب کی ہنڈیا میں گھی کم پڑنے لگا ہے،خشکی مائل ہے۔
انڈسٹری بند ہوتی گئی ، کپمنیاں تالے لگا کر واپس روانہ ہوئی، سرمائے کے ساتھ ٹیکنالوجی کی آمد بھی نہ رہی۔
کاروباری افراد واویلہ کرتے دہ گئے کہ یہ پاکستان کی “slow death ” کی طرف لیجایا جا رہا ہے۔۔
آپی غریدہ کتا بلی مقدم معشیتی پالیسی
نیوز ایکنر غریدہ فاروقی صاحبہ کی توجہ دلاو ٹویٹ کے بعد وزیر اعظم صاحب نے نرم دلی کا ثبوت دیا، کتوں اور بلیوں کی غیر ملکی خوراک بند کرنے کو ایک سفاکانه فیصلہ قرار دیکر واپس لے لیا گیا ، جبکہ انسانی بچوں کا دودھ ادوایات اور انڈسٹری کا خام مال، عیاشی کی اشیا کے ساتھ غیر ضروری اشیاقرار دے کر بند رکھے گئے۔
ملت فیکٹری کو پرزے منگوانے کی اجازت نہ ملی لیکن غیر ملکی ٹریکٹرورں کی امپورٹ ضروری خیال ہوئی۔
محفلوں کے موضوع بدل گئے ، جہاں نئی گاڑیوں کی ٹیکنالوجی زیر بحث رہتی تھی وہاں اب ایک دوسرے کو ملامت اور لعنت یوتھیا کون اور پٹواری کون ۔
مشکل فیصلے
1-حکومت وقت نے آتے ہی ہر اس کام کو سب سے ضروری سمجھا وہ امپورٹ بند کرنے کا،اور یہ فیصلہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیسے 22 کڑوڑ بھڑ بکریوں کو اندھے کنویں میں دھکیل دیتے۔
لیکن اس فیصلہ کا اطلاق صرف ان فضول اشیاء پر ہونا تھا جو انڈسٹری اور عام آدمی کے استعمال میں تھیں۔
2-میڈیا کے بند ہوجانے والے فنڈز کا فوری اجرا جس کے تحت پورے پورے صفحات کے اشتہار
” ترکی جارہا ہوں ”
ترکی سے آرہا ہوں “
‘سولر پینل لا رہا ہوں “
“سولر خریدنے جارہا ہوں”
اور یہی سولر پینل جب معیشیت کسی قابل نہ رہی، تو ایک فضول اضافی چیز قرار دے کر درآمدی پابندی کی فہرست میں شامل کر لیا گئے۔
مفتاح میاں کی پرواز
اور پھر انکو ذلیل کیا اور کروایا گیا، لندن والی بے عزتی ی خود تشہیر کروائی گئی، خبر یہ بھی آئی کہ مفتاح اسمائیل صاحب نے اپنی فیملی ایک نجی طیارے کے ذریعے ملک سے مستقل طور پر شفٹ کر دی ہے۔
درست فیصلہ کیا۔
“جنکو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں”
یہ اک خبر نہیں مستقبل کی تباہی کا آخری الارم تھا،ملک کے وزیر خزانہ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ معیشیت کا رخ کیا ہے
بھارتی طیارے مسلسل کراچی میں ٹچ ڈاون لینڈنگ کرتے رہے اور ایک افیسر کو مشکوک بیگوں کا معاملہ پوائنٹ آوٹ کرنے پر نوکری سے آوٹ کر دیا گیا۔
جوہری اثاثہ جات
معاشی حالت یہاں تک خراب ہوئی کی پاکستان کی سب سے قیمتی سمجھی جانے والی چیز تک کے ریٹ لگنے لگے اور افواہ تھی کہ 80 ارب ڈالر دنیا کہ وہ لوگ اد کرنے جو تیار ہیں،
جو اپنی نسلوں کو ایک بہتر دنیا اور محفوظ مستقبل دینے کے خواہش مند ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بین الاقوامی ایجنسی کے اہل کاروں کو پاکستان کے جوہری اثاثہ جات کے کنٹرول روم تک رسائی دی گئی اور یہ اک انٹرنیشنل خبر بنی ۔
ڈار دی میجیشن
نئے وزیر خزانہ جو کہ ایک عرصہ سے اشتہاری مجرم تھے پلک جھپکتے ہر قانون ضابطہ انکی امد پر سرنگوں ہوا۔
اور جب ڈار ایا تو ڈالر بھی نیچے آیا۔
ڈار صاحب نے ماضی کی طرح مارکیٹ کو مصنوعی طریقہ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جس میں مبینہ طور پر تین ارب ڈالر مارکیٹ کی نظر ہوئے۔
اثاثہ جات
بیرونی اثاثہ جات پر سوال کرنے کا حق بھی اک قانون بن کر سلب ہوا۔
یہاں یہ بات شائد دلچسپ لگے ، کہ یہ اثاثہ جات ان تجربہ کار وں سے پہلے پاکستان سے محبت کرنے والوں کی محبت کی نشانیاں تھی، اپ ہر عمارت ہر اثاثہ دیکھ لیں کوئی نہ کوئی محب وطن اپنی ذات سے بالا ہو کر وطن کی خاطر دنیا سے لڑ کر پاکستان کی ملکیت بڑھات نظر ائے گا، نیو یارک کے ہوٹل سے نیدرلینڈ کے محل تک سب مھبتوں اور قربانی کی داستانیں ہیں۔
پی ڈی ایم کی مثال اس اولاد کی سی ہے ، جو باپ دادا کی محنت سے بنائی جائیداد اور نام مقام ، جوئے اور عیاشی میں بیچ کھاتے ہیں۔
سیلاب
قدرت نے پاکستان سے اپنی نارضگی کا اس شدت سے اظہار کیا کہ برصغیر کی تاریخ کا شائد سب سے خوفناک سیلاب آیا جس کے اثرات آج تک اسی خوفناکی سے موجود ہیں ، اور اس مرتبہ دنیا نے ہماری مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
امدادی کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کا جملہ تاریخ کا حصہ ہے کہ
” Pakistan is racing with time”
یہاں دوسری حقیقت یہ بھی ہیکہ پاکستان یہ ریس ہار چکا ہے کیونکہ ابھی تک ہم نے سمت ہی طے نہ کی ہے۔
پاکستان کے بننے سے ابتدائی چند سالوں کے علاوہ بے شرمی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ سیلاب مسلسل آرہے ہیں۔
اور اب تو دنیا مذاق اڑاتی ہے، ہر سال مرنے والوں کی لاشوں کی تصویریں دنیا کے بڑے بڑے چوکوں میں لگتی ہیں اور امداد اکھٹی کی جاتی ہے ، ہم حقیقی بھکاری قوم بن چکے ہیں۔
آج تک سیلاب سے سدباب کے لیے پہلی اینٹ نہ لگی ہے۔
آئی ایم ایف
ائی ایم ایف کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پاکستان کی عمر جتنے ہی پرانے ہیں، پی ڈی ایم قیادت 9 پروگراموں میں جاچکی ہے۔
اس مرتبہ حالات کی سنگینی اور صاحب اقتدار لوگوں کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے ایک شرط عائد کر دی کہ پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی گارنٹی دینی ہو گی ، کسی بھی دوست ملک کی طرف سے ، ایسا پہلے بھی ہوتا رہا پے، لیکن اس مرتبہ بمشکل سعودی ارب نے ہی تین ارب ڈالر کی گارنٹی دی ہے۔
پورے سال میں کوئی ہماری گارنٹی دینے کو تیار نہیں، آئی ایم ایف کی شرائط اس دفعہ زرا مختلف ہیں ، ان لوگوں پرہلکی ی سختی کی کوشش جو پاکستان کو جونکوں کی طرح چوس رہے ہیں۔ اسی لیے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نیں ہوئی۔
Pml(N)
پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ نواز نے 4 ٰئی ایم ایف پروگرام حاصل کیے اور پاکستان کے آئی ای ایف سے کل قرض کا 35٪ حاصل کیا۔
PPP
پاکستان کی تاریخ میںپی پی پی نے 6 آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیے اور پاکستان کے آئی ای ایف سے کل قرض کا 47٪ حاصل کیا۔
فوجی آمر
فوجی آمراور مارشل لا 18 ٪آیئ ایم ایف قرض کے ذمہ ار ہیں۔

یہودی لابی
یہودی لابی کی گردان سنتے ہماری عمر گزری اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ شہباز شریف صاحب نے روتھ چالڈ کے ساتھ میٹنگ کی اور شائد اب وہی آخری حل ہوں اگر کوئی نظام رہا۔
شہباز شریف صاحب نے ایک انٹرویو میں باقاعدہ عالمی برادری کو پیغام دیا کہ ہماری مدد کرنی پڑے گی ہم ایٹمی ملک ہیں ۔
اور دنیا کا ہم پر الزام کہ ہم بلیک میل کرتے ہیں کھبی ایٹم بم دکھا کر اور کھبی دہشت گرد۔
مردان میں جس دن سی ںٹی ڈی کی عمارت پر حملہ ہوا ،
فوری دنیا مدد کو آگے آئی ، لیکن اس کے بعد کی خاموشی معنی خیز ہے۔
فیٹف گرے لسٹ
کسی کو شائد یاد بھی نہ ہو کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں تھا اور بلیک لسٹ کیا جانے کا پریشر تھا،اب نہیں رہا۔۔۔۔۔
کیونکہ وہ پریشر دنیا میں ان ملکوں پر ہوتا ہے جنکی سمت ایک ترقی یافتہ اور مستحکم معیشت ہو۔
بات چلی تھی معاشی بارودی سرنگوں سے، پی ڈی ایم ٹولہ معاشی بارودی سرنگیں بچھانے میں مہارت رکھتا ہے اور آج کا دن اسی کا ثمر ہے،ساری امپورٹ ٓحتی کہ سیلاب میں مرنے والوں کے کفن دفن کے پیسے مانگنے گئے تھے تو جانے سے پہلے وزیراعظم صاحب جانے سے پہلے پر تعیش گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دے کر گئے تھے، لیکن امپورٹ خاص کر خام مال بند رہا۔
2018 ترقی کا سال
شہباز شریف صاحب اور پی ڈی ایم 2013 سے 2018 کو معیشیت اور پاکستان کی ترقی کا مثالی سال قرار دیتےہیں، حالانکہ معاشی بارودی سرنگیں اسی دور میں لگی۔
عام آدمی کو معاشی اشاریوں کے گورکھ دہندے میں الجا دیا جاتا ہے سادہ سی اک بات شائد بتانا بھول جاتے ہیں ۔
مئی 2018 میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تقریبا 6 ارب ڈالر تھے جبکہ دسمبر 2017 میں ذخائر ۔14.3 ارب ڈالر تھے, یہ ذخائر بنکوں کے علاوہ تھے، باروی سرنگیں ہی تھی جو 8 ارب ڈالر چھ ماہ میں تباہ کر گئی۔
موجودہ حکومت نے تو اس سے بھی بڑرھ کر کمال کیا، 17.48 ارب ڈالر سے 4ارب ڈالر تک آئے اور اس دوران سیلاب کی مداد۔ خیرات ، چندہ بھیک اس کے علاوہ ہے۔
ایشیائی ڈویلپمنٹ بنک و دیگر مالیاتی اداروں سے لیا قرض، اثاچہ جات کچھ بکے کبھ لیز پر۔۔۔۔۔

عمران خان کو وزیر اعظم کی حلف برداری کے بعد فوری کشکول چکائی کی رسم جو وزارت دفاع، خارجہ اور خزانہ نے مجموعی طور پر منعقد کی انہی بارودی سرنگوں کا نتیجہ تھی۔
کسی کو شوکت ترین کا واویلہ کرنا یاد ہے
” یہ لوگ پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے آئے ہیں ”
شوکت ترین صاحب کی کوئی خبر نہیں شائد ضمانت مل گئی ہو۔
اور چند ماہ قبل باقاعدہ ایک ریکارڈنگ جاری کی گئی تھی اسخاق ڈار صاھب کی جس میں وزیر خزانہ صاحب نےغالبا فرمایا “پاکستان اللہ نے بنایا ہے اور اللہ ہی چلائے گا”
بہت سی بارودی سرنگیں بقایا ہے جو لکھنا چاہتا ہوں لیکن نہ لکھنا ہی بہتر ہے ۔
کیونکہ ہم سب کے سامنے ہی تو تھا ، 50 سال بعد پاکستان کی انڈسٹری نے صرف اپنی سمت درست کی تھی، صرف سمت ۔۔۔۔

جب قومیں بہک جائیں اپنے اجداد کا راستہ چھوڑ دیں
اپنی شناخت کھو بیٹھیں ، تو عظیم سے عظیم لوگ بھی
موٹروے سے میٹرو کے سفر میں دفن ہو کر تاریخ کے گمنام صفحات میں بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں۔
نوٹ۔۔۔۔۔۔ چند نئے الفاظ تشریح طلب ہیں ۔۔
1- معاشی ایمر جنسی
2- سیاسی دہشت گردی
3- عوام میں ہمت ابھی ہمت ہے۔ (اسحاق ڈار )