پاکستان کا مستقبل کوئی نہیں؟

جو بویا ہے وہی کاٹنا پڑے گا

ببول کے پیڑ پر پھل نہیں لگتے ،  خاردار جھاڑیاں  پھول نہیں دیتی ، جو گھروندے تیار کریں ان میں خود رہنا پڑتا ہے۔

 جب کیکر بوئیں تو اسی کی  چھاؤں میں بسیرا کرنا پڑتا ہے۔

 پاکستان کی آ ج کی حالت کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

 ایک خبر پڑھتے ہی ذہن جیسے سن سا ہو گیا ۔

 سوچیں جیسے الفاظ کے ربط سے باہر ہو گئی 

اپنے بڑوں کی نا اہلی اور خود غرضی اور میری نسل کی خاموشی اور بے ہنر جہالت انکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔

   بھکاریوں کی اک کہانی ہے ۔

    نوآموز بھکارن سینئر کو کہتی ہے، دعا کرو بارش ہو جائے۔ 

  سینئر بھکارن کہتی بارش ہوگی تو کیا ہوگا،

    نوآموزبھکارن کہتی ہے۔۔۔

   کہتی ہے کہ بارش ہوگی تو فصل اچھی ہو گی، زمینداروں سے اناج ملےگا،کچھ دن خوشی کے گزریں گے۔

  سینئر بولی: اناج توسنبھالنا پڑے گا، سکھانا پڑے گا،

   اس کو کمروں میں رکھنا پڑے گا۔ 

  اتنے جتن کون کرے ۔

   روزکا روز بھیک مانگنی ہی ٹھیک ہے۔

  ابھی کل کی بات ہے،

پاکستان سے محبت کرنے والون نے کروپ(krupp)جو کہ آج بھی دنی میں سٹیل ٹائیکون ہے۔

 کو قائل کیا کہ وہ پاکستان میں انڈسٹری لگائیں،

کروپ سٹیل دنیا میں اپنی مثال آپ تھا ، دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے تمام جدید ہتھیاروں کی تیاری میں  کروپ کا لوہا اور سٹیل استعمال ہوتا تھا ۔

کروپ کا سٹیل فولادضرب المثل تھا۔

کرپس نے پاکستان کے دورے کیے اور ملتان کو اپنی نئی فیکٹری کے لیے منتخب کر لیا۔ 

ملتان کا فیصلہ اس لیے کیا کہ یہاں کوئٹہ سے کوئلہ اور میانوالی سے خام مال کی ترسیل ہونی تھی۔

طے پاگیا کہ ٹیکنالوجی اور مشینری کروپ کے ذمہ .

اور لوکل ریلوے ٹریک اور عمارت ہماری ریاست پاکستان کے ذمے۔

بیوروکریسی نے فائلیں سیدھی کی رنگ برنگے فیتے لگائے اک بابو سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے

کی طرف ،آخر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔۔۔

اعتراض: اگر سٹیل عالمی معیار کا نہ ہوا تو کیا ہو گا؟

جواب: میں اس کو ایکسپورٹ کردوں گا۔

اعتراض:اگر سٹیل کی مطلوبہ قیمت نہ مل تو ہمارے خام مال کا کیا ہو گا ؟

جواب:اگر لاگت پوری نہ ہوئی تو قیمت میں ادا کردوں گا

 تمام اخراجات میرے ذمہ ۔

لیکن اس کے بعد بھی فائل کھبی ایک میز اور کبھی دوسری میز۔۔۔۔۔

ترکش کا سب سے مضبوط تیر چلا دیا: ہمارے پاس ریلوے لائن بچھانے اور بلڈنگ بنانے کے لیے رقم موجود نہیں جواب

 آپ صرف وہ جگہ دے دیں جہاں پر عمارت بنائی ہے۔

اس دور میں اتحادیوں نے کروپ پر پابندی لگا رکھی تھی کہ یورپ میں انڈسٹری نہیں لگا سکتا ۔۔۔۔۔

اتحادیوں کا لیڈر امریکہ بہادر کا خاص حکم تھا۔

بھارت نے موقع غنیمت جانا اورجیسے ہی کروپ مایوس ہو کر واپس گیا انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 

اور  3 فروری 1959 کو بھارت کی پہلی پبلک لیمیٹد سٹیل کا آغاز ہوا۔

بھارت کے میں آج بھی وہ فیکٹری قائم ہے ۔ اس میں ایک بات اور دلچسپ یہ ہیکہ اگر معاہدہ اورنفاظ سب دیکھا جائے تو جرمنی نے کم سے کم جرمنوں کو نوکری دی اور ایک شفٹ آف ٹیکنالوجی عمل میں ائی ۔ 

اس کے بعد پانی کو سنبھالنے اور ڈیم بنانے کا دور شروع ہوا ملک میں بڑے ڈیم بنائے گئے میگا پراجکٹ شروع ہوئے ان میگا پراجیکٹ میں انجینئروں کی ایک پوری جماعت ڈیم ٹیکنالوجی میں تربیت یافتہ ہوئی ۔ 

 بڑی کمپنیوں سے ڈیم بنانے کا علم سیکھنے والی یہ نسل، سیاسی فیصلوں نے کالا باغ ڈیم کی بحث میں الجھا کر ضائع کردی گئی ۔ 

اب کالا باغ بھی قصہ ماضی ہوا اور وہ ہنر یافتہ نسل بھی گزر گئی۔

نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ڈیم ہوں ٹنل ہوں پہلے ریلے میں بہہ جاتی ہے ۔

مشرف دور میں دنیا کی پانچویں بڑی مارکیٹ جانتے ہوئے اس وقت کے سافٹ وئیر جائنٹ بل گیڈز نے متعدد مرتبہ رابطہ کیا۔ 

چوری کو چوری ڈکلیئر کر کے قانون بنا دیں ۔

جو سسٹم 30 روپے کی سی ڈی سے چلتا ہے ۔ وہ کمپنی کو باقاعدہ 1100 روپے دیکر چلائے اور بدل میں  ملک میں آئی ٹی کے دروازے کھول دیں ۔

 لیکن ہم نے چور رہنا پسند کیا، آج پاکستان میں 80فیصد سافٹ وئیر چوری کا استعمال ہوتا ہے۔

اور پاکستان کی ٹوٹل آئی ٹی کی صنؑت بھارت کی ایک کمپنی سے چھوٹی ہے۔

 ہم پاکستانی چوری بھی اچھی نہیں کرتے۔

بڑی محنت سے آج کا دن آیا ہے۔

 چند ہی دن گزرے ہیں کہ ویسپا کی فیکٹری نہ لگنے کی وجہ وزیر خزانہ کا رشوت طلب کرنا تھا۔  

سویابیں پورٹ پر رکا رہا اور اافواہیں گردش کرتی رہیں کہ 1 ارب ،مانگا جارہا ہے۔

نور عالم خان نے پاکستان میں گاڑیاں بنانے تین بڑی کمنیوں کو کم تر کوالٹی اور پرانی ٹیکنالوجی پرباز پرس کرنے کی کوشش کی تو اسی کمیٹی کے ایک ممبر نے ، کمپنی والوں کی طرف سے نور عالم خان کی مخالفت کی۔

بیٹریاں سپلائی کا ٹھیکہ انکا تھا۔

 آج فرانس نے اعلان کیا ہیکہ بغیر کسی شرط کے دفاعی ٹیکنالوجی بھارت منتقل کرنا چاہتا ہے۔

 تاکہ وہ اپنی سکیورٹی کی ضروریات پوری کرسکیں۔ 

ہم آج تک اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنی گندم کی ضروریات پوری کرسکیں۔ 

قدرت  بار بار پاکستان کی طرف پلٹتی رہی لیکن ہم نےفیصلہ لیا کہ اناج اگیا تو سنبھالنا پڑے گا۔

 ہم نے خود ہر راستہ اپنی بقا کا بند کیا ہے۔

پاکستان کا آج کا سب سے بڑا سرمائیہ اس کی نوجوان نسل ہے لیکن 

   کمپنی نے یوتھیا مار سپرے کرکے اس نسل کو پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا 

Avatar of Naveed

Naveed

I am an ordinary man.

Related post

2 Comments

    Avatar of Rehaan ahmad
  • Ya baty pta nh kb smjh mai ay ge in ky kia hain hum

Comments are closed.