غدار پیدا گیر معاشرہ اور ملک چھوڑتے نوجوان
اپنے ذاتی مفاد کے لیے،اپنے گروہ برادری یا ملک کا مفاد قربان کر دینا، ملک یا برادری کا نقصان کر دینارقم کے عیوض فروخت کر دینا غداری کہلاتا ہے۔
معاشرہ اور غدار
پورا معاشرہ بحثیت مجموعی غداری کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، لیکن یہ بات بھی عین حقیقت ہیکہ انہی نفرت کی نظر دیکھنے والوں میں وقتا فوقتا نیا غدارپید ا ہو جاتا ہے ۔
غدار ہمیشہ مسلمانوں اور تیسری دنیا میں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
باعث شرم ہے یہ امر کہ غدار ہمیشہ مسلمانوں اور تیسری دنیا میں ہی پیدا ہتے ہیں ، کیا آپ نے کھبی سنا کہ کوئی امریکی یا برظانوی غدار ہوا ہو اوقر اپنے ملک کو بیچ دیا ہو۔ چند واقعات کو دہراتے ییں معاملہ سمجنے میں آسانی رہے ۔
عرب کے مسلم اور غداری
مدینہ کی ریاست کے قیام کے بعد جب مسلمان اسلام کو پھیلانے کے لیے عرب کے صحراوں سے باہر نکلے۔ تو بے سرو سامانی کے عالم میں کم تر ہتھیار لیکن دنیا پر چھا گئے۔ انکا جوش اور جذبہ بڑے بڑے ایمپائر لرزانے کو کافی تھا۔بڑی سے بڑی سلطنت انکے سامنے نہ ٹک پائی۔ اگر جنگ کو جنگ کی طرح دیکھیں۔۔۔۔
جنگ میں فتح و شکست کی قیمت ہوتی ہے بہت بڑی قیمت، انسانی جانیں، املاک کی تباہی، اجناس اور فصلوں کی بربادی، تجارت و صنعت کی تباہی ۔
مسلمانوں کو فتح کے ساتھ کئی جنگوں میں شکست بھی ہوئی۔
کئی جنگوں میں ایسا بھی ہوا کہ جو فوج روانہ ہوئی محاذ پر محاذ فتح کرتے پوری فوج کھیت رہی۔
جو فوجی مرتے ہیں انکے خاندان بھی ہوتے تھے۔
انکے بچے بیٹے بیٹیاں گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ کی ریاست بطور فلاحی ریاست
اسلامی تاریخ میں کہیں ان جنگوں میں شہید ہونے والوں کی بیوائیں بچے آہ و فگاں کرتے نظر نہں آتے۔ کہیں پر بھی ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہوئے۔
مال غنیمت کو دیکھیں تو سخت گیر خلیفہ اک کپڑے کا ٹکڑا تک اضافی نہ دیتا تھا۔ جو جسکا جتنا حق اسکو ملتا تھا۔
کسی جنگجو کو کھبی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ وہ لاوارث ہے اگر مر گیا تو جنہیں چھوڑ کر جا رہا ہے انکا کیا ہو گا۔بے حساب مال غنیمت اور خزانے بھی انکا ایمان نہ خرید سکے۔
جمہوریت، آمریت اور خلافت کے مفادات
خلافت موقوف ہوتے ہی آمریت کی داغ بیل رکھی گئی، آمریت خواہ جتنی بھی اچھی ہو فرد واحد کی حکومت ہوتی ہےاور اسی کے مفادات اور اختیارات مقدم رکھتی ہے۔
جبکہ خلافت اور جمہوریت میں یہ قدر مشترک ہیکہ خلیفہ یا حکمران جس قدر بھی طاقتور ہو,عوام کے حقوق کا نگہبان, لوگوں کی املاک کا محافظ اور ایک نظام عدل کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔
میر جعفر نے سراجالدولہ سے کیوں غداری کی
سراجالدولہ کو اسکی پیدائش سے ہی خوش نصیب بچہ کہا جاتا تھا۔ سراج کے تخت نشین ہونے میں اسکی کسی ذہانت یا کوئی ایسا عمل ذمہ دار نہ تھا کہ جس سے بنگال کو بیش بہا فائدہ حاصل ہوا۔
سراجالدولہ اپنے داد کا لاڈلا تھا اور یہی لاڈ سراج کے تخت نشین ہونے میں قابل قدر خوبی تھی۔ 23 سال کی عمر میں تخت نشین ہوا۔
اس کی تخت نشینی میں چند لوگوں نے مخالفت کی ان میں مہرالنسا بیگم (گسیٹی بیگم) اور میر جعفر وغیرہ شامل تھے۔
مہر النسا بیگم کی کوئی اولاد نہ تھی تاہم اپنے میاں کی چھوڑی دولت کے سبب قابل ذکر حد تک صاحب ثروت تھی۔ سراج نے انتقاما اپنی خالہ مہر النسا بیگم کی ساری دولت اور جائیداد ضبط کر لی اور میر جعفر سمیت باقی طاقتور درباریوں کی طاقت کم کرنے میں لگا رہا۔
مہرالنسا بیگم کی جائیداد اور مال و زر ضبط کر کے اپنے سامنے کسی اصول ضابطہ کی اہمیت کا نہ ہونا سراجالدولہ نے طے کر دیا تھا۔ مزید نت نئے ماالی احکامات نافذ یے جن سے تمام امرا اور درباری اس کے خلاف ہو گئے۔
بد اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ میر جعفر جب کبھی کسی معاملہ میں سراجالدولہ کو ملنے جاتا۔ تو واپسی تک ایک غیر یقینی کی فضا رہتی کہ میر جعفر جو کہ سپہ سالار افواج بنگال تھا، واپس آاتا ہے یا اس کی موت کی خبر ۔۔۔۔
میر جعفر اپنی بقا کے لیے پریشان نت نئے منصوبے سوچنے میں مصروف رہتا، اور سراجالدولہ میر جعفر کو راستے سے ہٹانے کی۔
اس ماحول اور اس درجہ عدم اعتماد کے ساتھ جنگ میں جانا اور اسی سپہ سالار کے ساتھ جانا سراجالدولہ کی وہ غلطی تھی جس نے اس کی شکست جنگ شروع ہونے سے قبل ہی یقینی بنا دی تھی۔
اپنے مال اور جان کے مستقبل کی غیر یقینی صورتحال نے ہی میر جعفر کو انگریزوں سے ہاتھ ملا کر اپنی اپنا مستقبل محفوظ بنانے پر مجبور کیا۔
امریکہ اور یورپی ریساستوں کا طرز عمل
امریکہ ہر وقت جنگ میں رہتا ہے ، اس کے نوجوان مرتے بھی ہیں، لیکن امریکی اپنا جوان گمنام راہوں میں نہیں چھوڑتے، امریکی اپنا جوان جنگلوں میں جانوروں کی حفاظت میں نہیں دیتے۔ درجنوں ایسے واقعات موجود ہیں جس میں ایک فوجی کی لاش کے بدل درجنوں جان سے گئے۔
امریکہ پوری دنیا میں جو مرضی کرے اپنے لوگوں کے ساتھ انکا سلوک اصل ریاست والا ہے۔ وہ یپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتے، اپنے لوگوں پر طاقتور ترین ادارےکوئی قوت نہیں آزما سکتے، عدل کا نظام عوام کا محافظ ہے۔
یہی عالم یورپ میں ہے ، انسانی بنیادی حقوق کو وہ لوگ جرم سے بڑھ کر جرم جانتے ہیں۔
غدار پیدا گیر معاشروں اور ملکوں کا موازنہ کریں تو ایک بات جو آتی سے سمجھ آتی ہے۔

غدار پیدا نہیں ہوں گے جہاں
لوگ ریاست سے ڈرتے نہیں محبت کرتے ہوں۔
جن ملکوں میں غدار پیدا نہیں ہوتے فرد مال و دولت سمیت کسی بھی لالچ میں نہیں آتےاور ریاست کے ساتھ مخلص رہتے ہیں ۔
وہاں نظام عدل اپنی پوری روح کے ساتھ رائج ہے۔ریاست اور فرد کا مفاد ایک ہے۔
وہاں ریاستی رٹ تب قایم ہوتی ہے ،جب کسی کمزور اور مظلوم پر ظلم ہوتا ہے حق تلفی ہوتی ہے۔
کسی ریڑھی والے کو اگر کسی کار سے نقصان ہو سالوں کا حرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
ریاست یاد رکھتی ہے کہ وہ بنی کیوں ہے۔
غدار پیدا گیر معاشرہ کی نشانیاں
لوگ ریاست سے محبت نہیں کرتے ، خوف کھاتے ہوں۔
وہاں نظام عدل برائے نام ہے یا بالکل نہیں ہوگا۔
لوگ انصاف کے لیے روز قیامت کے منتظر ہوتے ہیں۔
حضرت انسان کی تذلیل ہوتی ہے۔
لوگوں کا معیار زندگی دو حصوں اور کئی میں تین حصوں میں تقسیم ہے۔
ایک مسلسل غیر یقینی کی صورتحال اور آنے والے کل کی بابت ہر وقت اک بے نامی پریشانی۔
خوف اور انسانی ارتقا
خوف انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔
خوف ہی ہے جس نے پتھر سے بنے پہلے تیر سے ایٹم بم تک بنا ڈالا۔
خوف ہی ہے جو انسان کو اگے بڑھتے رہنے اور بہتر سے بہتریں کی طرف رواں دواں رکھتا ہے۔
بھوک غربت کچل دئے جانے کا خوف انسان کو محنت اور مزید محنت پر اکساتا ہے۔
خوف ترقی اور اگے بڑھتے رہنے کا کلیہ ہے۔
لیکن یہی خوف جب اپنی ریاست سے پید اہو جائے۔ یہی خوف اپنے گھر کا اور اپنی مال اولاد کے تحفظ کا ہو، غیر یقینی اور مایوسی ڈیرے ڈال دے ،
ریاست جو تحفظ کرنے والی ہے سب سے زیادہ اسی سے خوف رہنے لگے، ہر مظلوم کو انصاف کی امید ریاست کی بجائے روز قیامت اللہ کی عدالت سے ہو۔
تو پھر ہر انسان وہی کرتا ہے جو میر جعفر نے کیا،جو ہم میں سے ہر شخص موقع ملتے ہی امریکہ کا ویزہ ملنے کی امید میں ساری محب وطنی بھول کر کرتا ہے۔
جو مایوس اور خوف زدہ ہو کر ملک چھوڑ جانے والے لاکھوں نوجوانوں نے کیا۔اور یہ غداری نہیں اپنی بقاکی جنگ ہے۔
اور اگر کہیں دور ریاست سن رہی ہے، یاد کر لے میرے بڑے بزرگوں نے یہ ملک اس لیے بنایا کی ہم یہاں رہیں اور ریاست کی چھت ہمارا تحفظ کرے۔
میرے جیسے بے شمار ریاست کے درخت کو پانی کی جگہ اپنا خون دتے رہے ہیں اور بھی دیں گے اپنے گھر کو کون چھوڑتا ہے، خون آشام بلا بننے کی بجائے تحفظ اور انصاف کرنے والی بنے ، پھر دیکھے کون چھوڑ کے جاتا ہے۔
غدار فرد نہیں ریاست ہوتی ہے جو اپنا فرض پورا نہیں کرتی۔