کیا بنگال میں ہالوکاسٹ ہوا تھا؟

بنگال ہالوکاسٹ

ہالوکاسٹ کا نام سنتے ہی جرمنی کا نازی فاشسٹ ڈکٹیٹر ہٹلر  ذہین میں آتا ہے

 لیکن انڈین ہالوکسٹ کو شاید بھلا دیا گیا ہے۔

ایک نہیں دو مرتبہ ہالوکاسٹ ہوا۔

لیکن چرچل کے نام پر دھبہ تک نہ آیا۔

کیا تاریخ کی کتابیں مستد ہیں؟

شازونازر ہی تاریخ دان بلا خوف خطر درست حالات لکھ پائے ہیں، اور ایسے لوگوں کو نہ توفاتح پسند کرتے ہیں

اور نہ مفتوح ،ان کی تحریر اور سوچیں وقت کے پردوں میں دب کہ رہ جاتی ہیں۔

 مفتوح ، صفحہ تاریخ پرظالم ، عیاش ،علم سے غافل قرار پاتا ہے،

جبکہ فاتح نجات دہندہ اور نیک سیرت

اتحادی افواج اور جنگی جرائم

کیا جنگ عظیم کے بعد اتحادی افواج پر جنگی جرایم کا کوئی مقدمہ بنا؟ 

دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو جنگی قیدیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات چلائے گئے، کچھ یورپ میں چلے اور کچھ جاپان میں لیکن فاتح اقوام کا کوئی بھی شخص جرائم میں ملوث نہ  پایا گیا ۔۔۔

فاتح اقوام کا دعوی ہے کہ تقریبا 60لاکھ یہودیوں کو ہٹلر نے قتل کیا ، ہٹلرظالم و جابر اور اور فاشسٹ قرار پایا ، اور ان کے مقابل اتحادی فوجیں،انسانیت محبت اور امن پسندی کے علم بردار۔۔۔

بنگال کا پہلاقحط

برصغیرکی تاریخ کو میں سب سے زیادہ اموات 1770ء میں قحط سالی کی وجہ سے ہوئی، 

اور قحط سالی 1770سے 1773 تک جاری رہی ،

 اس میں تقریبا ایک کروڑ انسانوں کی جان گئی،جوہولوکاسٹ سے 40لاکھ زیادہ ہیں,

اگر اس کی وجوہات کا جائزہ لیں لی تو حیران کن تفصیلات سامنے آتی ہیں ۔۔۔۔۔

معاہدہ آلہ آباد

  مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے1764 میں بکسر کی لڑائی میں ہونے والی شکست کے بعد،1765 ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ساتھ معاہدہ کیا۔

جس کی رو سے بنگال ،اڑیسہ اور بہار سے لگان کی وصولی کا اختیار کمپنی کو دے دیا گیا ۔جسے معاہدہ الہ آباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،جس کےعیوض کمپنی نے 26 لاکھ روپے سالانہ ادا کرنا تھے ۔

مغلیہ دور میں ٹیکس کی وصولی کا طریقہ کار کیا تھا ؟

 مغل دور میں کسان 1/3,1/4  فیصد لگان دیا کرتے تھے، جس سے شاہی اخراجات اور دیگر اخراجات پورے کیے جاتے تھے، باقی کسانوں اور ذمینداروں کے پاس ان کی مناسب پیداوارآسودہ زندگی کے لیے بچ جاتی۔

 مغل دور میں لگان اکٹھا کرنے کے مختلف نظام موجود تھے

 جن میں دہسالہ  غلہ بخشی اور ناسک زیادہ قابل ذکر ہیں۔

ان تمام نظاموں میں کسان کو بےجا لگان اور مقامی افسران کی جانب سے زائد لگان یا پریشانی سے بچانے کی بھی کوشش کی جاتی تھی ۔

کسی موسی آفت یا قحط کی صورت میں لگان معاف کر دیا جاتا تھا اور باقاعدہ قرض کی سہولت بھی موجود تھی ۔

 اس نظام پر مسلسل نظر رکھنے سے یہ آہستہ آہستہ بہتری کی طرف گامزن رہا اور مغل سلطنت کی کامیابی کا باعث بنا۔

لگان ادا کرنے کے بعد بھی پورے ہندوستان میں تقریبا ہر جگہ شاندار عمارات اس دور کی خوشحالی کی ایک ثبوت ہیں

ایسٹ انڈیا کمپنی کامعاشی قتل عام۔۔۔۔

کمپنی نے لگان کی شرح اپنی مرضی سے بڑھا دی۔

1769 میں قدرت آفتات کی وجہ سے فصل انتہائی کم ہوئی،کسانوں سے زور بازو لگان  لیا گیا۔

 اور اور انہیں بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، انسانوں جانوروں اور مزدوروں کی کم ہوتی تعداد جب لگان پر اثر انداز ہوئی، 

تو باقی ماندہ کسانوں پر لگان مزید بڑھا کر 50 فیصد تک کر دیا گیا، تاکہ کمپنی کے منافع میں کوئی کمی نہ آئے اور بعد ازان 60 فیصد بھی ۔۔۔

بھوک سے لاغر وجود اور جابجا لاشیں جانور کھاتے رہے ، بچ جانے والے گھاس اور پتے کھا کر جان بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

 بنگال کی ⅓ آبادی ختم ہو گئی ، نہ تو انگلشیا سرکارکے دل میں رحم جگا سکی اور نہ ہی تاریخ کے اوراق میں ۔۔۔۔۔

bengal femine

حیرت انگیز طور پربنگال، بہار ،اڑیسہ ،جھاڑکھنڈ سے چار ملین اوسط لگان قحط کے دور میں اکھٹا ہوا۔

بنگال کا دوسرا قحط

  بنگال میں دوسرا بڑا قحط 1943 میں آیا، جس میں تقریبا چالیس لاکھ لوگ اپنی جان سے گئے

 اور یہ وہی وقت تھا جب ہٹلر یورپ میں یہودیوں کا قتل عام کر رہا تھا۔

 انگریز سرکار نے 1945 میں ایک رپورٹ جاری کی, جو کہ بنگال 1943 قحط کے متعلق تھی۔

 جس میں ایسی تمام وجوہات درج ہیں، جن میں قصور وار صرف اور صرف بنگالی خود ہیں۔

 سلطنت برطانیہ پر ایک انگلی تک نہ اٹھائی گئی،اس رپورٹ میں درج نہیں کہ کس طرح تمام ہندوستان سے اجناس و مصنوعات کس ریٹ پر فوجی رسدکے نام پر اٹھائی گئی۔

 اور انکی ادائیگی کیسے ہوئی۔

  وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کو دہلی گورنمنٹ نے ایک ٹیلی گرام بھیجا۔

جس میں تمام خوفناک حالات کے بارے میں بتایا ، توبڑے عام انداز میں یہ کہتے ہوئے۔     

Then why hasn’t Gandhi died yet

     : ادوایات اور خوراک کی رسد جنگی فوجیوں کی طرف موڑ دی اور لاکھوں لوگ مرنے کے لیے چھوڑ دیے 

 اور جگہ چرچل نے کہا ۔۔

I hate Indians. They are beastly people with a beastly religion. 

The famine was their own fault for breeding like rabbit

تاریخ کا کڑوا سچ

 مورخ لکھتا تومورخ ہے،لیکن قلم میں سیاہی اور لکھنے کیے لیےکاغذ فاتح مہیا کرتے ہیں ۔

اور وہی تاریخ لکھی اور چھاپی جاتی ہے اور پڑھی جاتی ہے ۔جو حکمران چاہتے

فاشسٹ

فاشسٹ وہ ہوتا ہے جو ہارجائے۔

جنگی جرائم 

جنگی جرائم وہ جرائم  کہلاتے ہیں جو مفتوح کرے ،فاتح کبھی جرم نہیں کر سکتا ۔

ویانا کنونشن کے قوانین اگرکوئی ملک توڑے تو کوئی سزانہیں ۔

عراق کا پورا ملک ایک اندازے پر تباہ کر دیا ۔

سرعام کنٹینروں میں طالب بھرکرماردیے جائیں ، ابو غریبب، گنتے جائیں شرماتے جائیں ۔

لیبیا،شام،افغانستان اور جانے کتنے ۔ واقعات کی گنتی ہی مشکل ہے انسانی جانوں کی قیمت کیا ۔

امن کی ترغیب دینے والے خود دوسری جنگ عظیم کے بعدسے اب تک حالت جنگ میں ہیں ۔۔۔۔۔    

کیا سر ونسٹن چرچل جنگی جرائم میں مجرم تھے ؟

ہٹلر پر الزام ہیکہ اس نے 60 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا ۔

جبکہ ایسٹ انگریزوں نے مجموعی طور پرڈیڑھ ارب اور  صرف چرچل نے 40 لاکھ لوگوں کو بھوک سے تڑپا تڑپا کر مارا۔

اگر ہٹلر جیت جاتا تو چرچل جنگی جرائم کا مرتکب ٹھرایا جاتا

 یہی فاسشٹ کہلاتا ۔اور 40 لاکھ بنگالیوں کو بھلا نہ دیا جاتا ۔

In reality only one thing matters...

ماضی ہو یا مستقبل 

صرف ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور وہ ہے فتح باقی تمام

 اخلاقیات،قانون، سب کچھ اس فتح کے اردگرد خود بخود ڈھلتا چلا جاتا ہے ۔

ہارنے والا ہمیشہ عیاش ، بے وقوف، کاہل اور جاہل 

 

it’s not the truth that, matters.

it’s The victory.

Adolf Hitler.

کیا مغلیہ دور میں برصغیرجہالت کا مرکز تھا ؟

  تاریخ کا ہر پہلو توجہ کا طالب ہے اور ایک غیر جانبدار نظر سے دیکھے جانے کے انتظار میں ہے۔

مغلیہ دور کی عمارتیں مسلسل غیر مناسب دیکھ بھال اورعدم تعمیرومرمت کے باوجود موسم، 

حالات جنگ و جدل اور وقت کی شکست و ریخت سے مقابلہ کرتےہوئے ،

 آج بھی اپنی سابقہ عزمت بتلاتی ہیں ۔۔

جبکہ کہ انگلشیاسرکار اور آج جدید دور کی عمارتوں کی حالت چند برسوں میں ہی زبوں ہالی کا شکار ہے۔

جن لوگوں کی پہچان  جہالت ، عیاشی جبگ و جدل  اور علم دشمنی بنا دی گئی ،

انکی بنائی عمارتیں آج بھی 

آرکیٹیکٹ             سول انجینرنگ۔             ائیرو ڈائنامکس۔       نیچر آف میٹیریل 

              کیمسٹری۔                 فرسکو۔                    جیومیٹری                     فزکس

اور کئی طرح کے علوم میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

ذہنی شکست خوردگی اور ہٹسری

نفسیات دانوں کا ماننا ہے 

ہارنا اور ہار قبول کرلینا دو الگ باتیں ہیں ۔

فوجی اگر ہتھیار ڈال دے تو بھی انہیں تب تک ہارا ہوا نہیں مانا جاتا جب تک قید میں موجود فوجی بھاگنے کی کوشش ترک نہ کر دے ۔۔۔۔

 

  فتح مکمل کرنےاور کسی قوم کوذہنی ظور پر شکست خوردگدہ رکھنے کے لیے ماضی سے متنفر کرنا اور احساس کمتری میں منتلا کرنا ضروری ہے ۔ضروری ہے کہ مفتوح قوم کے دل سے ان کی سابقہ رسوم ، عظمت ، تاریخ ، ہر وہ اعزاز و کردار مسخ کر دیا جائے جو ان میں قومی غیرت جھگا سکے ، کیسے لکھنے دیں کہ یورپ کا انڈسٹریلائزئشن کا عمل بھارت کا خون چوس کر اور لوگوں کو بھوک سے مار کروقوع پذیر ہوا ، کپڑے کی ملیں چلانے کے لیے اک اٹی اون نہ چھوڑی اور لاکھوں جولاہے سسکتے رہے ۔ 

A nation that forgets its past، has no future

Churchill.

احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے چند بدلے گئے القاب ؟

مولوی جیسا عزت دار لقب تہقیر کی علامت بنا دیا جاتا ہے۔

مرزا ،تو کتابوں میں رہ گیا۔

خان بہادر اور خان صاحب جیسے خطاب گانے والوں کے نام ہوئے ۔۔۔

مغل ، لوہا کوٹنے والوں کے نام ہوا ۔۔۔

مدرسہ صرف دینی تعلیم کہ جگہ اور معلم سب سے سستے آستاد ہوئے ۔۔۔۔

زبان کو آج تک اپنا نہ سکے ، 

لباس صرف نچلے درجے کی نوکری میں لائق ۔۔

جناح کیپ پہنے ہرکارہ ہر عدالت کے باہر ٹائی والے صاحب کی بڑائی غیر محسوس طریقہ سے دماغ میں بھرتا جاتا ہے ۔۔۔

کوئی اک حوالہ نہ ہے کہ اپنے وطن تاریخ و حکمت پر فخر کر سکیں ۔۔۔۔

سوچیے کوئی خوبصورت بچہ دیکھتے اس سے اردو یا انگریزی میں بات کیوں کرتے ہیں 

پنجابی میں کیوں نہیں ،ماں بولی بد تمیزی میں شمار کیوں ۔۔۔۔۔

تمام ۵ ستارہ ہوٹلوں میں گبھرو جوان ہمارے قومی لباس میں دربان اور ویٹر سے مینیجر پینٹ ۔۔۔

ہر شادی پر پتلون کوٹ کیوں ۔۔۔۔

ولیمے جیسی اسلامی  تقریب میں دولہا ہمیشہ کوٹ کیوں ذیب تن کرتا ہے ۔ 

ہم آج بھی غیر آرادی طور پر مالکوں جیسا لگنا چاہتے ہیں ۔۔

نئے نام دیئے جاتے ہیں ۔ 

کرسی نشین ، ذیلدار ، نمبردار اور سفید پوش عزت والے کہلاتے ہیں ۔۔۔۔

 پاکستان کا تعلیمی نصاب شاندار بے مثال دور میں داخل ہوچکا ہے،  اس میں تمام قابل ذکر تاریخی حوالے نکال دیے گئے ہیں،

 تمام غیر مسلم یا اقلیتی ہیرو ہذف ہو گئے ہیں اور اک خاص نکتہ نظر کے مطابق نئی ضرورتیں نئے ہیرو تخلیق کئے گئے ہیں ۔

Those who fail to learn from history are condemned to repeat it.

House of common 1948, Churchill

سونے کی چڑیا آج بھی اپنی مثال آپ ہے ، اتنی لوٹ کھسوٹ کے بعد بھی زندہ ہے ، مگر جو غلامی کا طوق نظر نہیں آتا اس کے وزن سے سسک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔

چشم بند اتار کرارد گرد دیکھیں ، کوئی قوم واپس اپنی عظمت نہ پاسکی جو اپنی تاریخ بھول گئی ۔

 ہارنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی، ہارجانا،جدوجہد ترک کر دینا غلط کو غلط جانتے ہوئے درست کہنا ، جانتے بھوجتے ظلم کو فتح قرا دینا ، پرائی آگ میں نسلیں جھوک  دینا ،

  زنجیریں جو سوچ پر ہیں انکو توڑ ڈالیے ۔۔۔۔

A nation without a past is a lost nation, people without a past, people without a soul

Sir Seresta Khama

Naveed

I am an ordinary man.

Related post