آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض سے انکار کردیا۔
ائی ایم ایف نے پاکستان کو قرض سے انکار کر دیا ہے۔پاکستان کےحالات سنگین تر ہو تے جا رہے ہیں ۔
حقیقی معنوں میں پاکستان 1971 کی حالت سے بھی چند قدم اگے کھڑا ہے۔
معاشی بدحالی،بری گورنس لوٹ مار کے تمام ریکارڈ جو 1947 سے 2022 تک بنے وہ سب کے سب پچھلے کچھ عرصہ میں ٹوٹ گئے ہیں ۔
مہنگائی کی شرح کے بلند تریں سطح پر پہنچ سکتی ہے۔خواجہ آصف کا یہ بیان کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں ۔حکومتی ناکامی کا اعتراف ہے۔خانہ جنگی کی پیش گوئیاں ہونے لگی ہیں۔
اب چین کے قرض کے علاوہ کوئی دوسرا اپشن نہیں بچاہے، اور عوام مار مہم میں حصہ بنتے چین بھی پس و پیش سے کام لے رہ ہے۔لیکن صد افسوس ہمارے رویوں پر۔
اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے خدا جیسے لوگوں پرجنکی ترجیحات آج بھی مختلف ہیں۔
ایسے وقت میں جب قوم کو حالات کی سنگینی کا احساس دلواتے قومی یکجہتی کو فروغ دے کر عیاشیاں بند کی جاتی۔اس وقت بھی ذاتی مفادات اورمخالفتیں پہلی ترجیح ہیں ۔
کسی بھی وقت لائیٹ بند ہو سکتی ہے اور گھپ اندھیرے چھا سکتے ہیں۔
کوئی ملک اس حالت میں آج تک اس طرح عمل کے ہوتے، بچ نہیں پایا تو پاکستان کیسے ۔۔۔۔۔
ظالم سے بڑا ظالم مظلوم خود ہوتا ہے کیونکہ جب اس کے سامنے ظلم ہو رہا تھا۔ مظلوم خاموش رہا۔۔۔
جھوٹی خبریں اور بدنیتی پر مبنی معاملات نے کبھی حل کی طرف جانے نہ دیا۔
اپریل سے اب تک جب بھی کوئی بڑا کام ہوا ہمارے پیارے لوگوں نے کوئئ بڑامیلہ لگایا
اس دفعہ کم از کم عمران خان سے بات بنے گی۔
مجیب نے چھ نکات 1966 میں پیش کیے جن میں سے 5معاشی تھے۔
ایک موقع پرمجیب نے یہ بھی کہا کہ 6نکات قران نہیں جو بدلے نہ جا سکیں ۔
آج کی نوجون نسل کی طرح کسی نے اس کی بات کی گہرائی اور سنجیدگی محسوس کرنے کی بجائے طاقت اور جبر کا سہارا لیا۔
ان میں کتنے 18 ویں ترمیم کا حصہ ہیں۔ اگر اب ہوئے تو تب کیوں نہیں۔
لیکن وقت کے فرعونوں کی منشا کچھ اور تھی۔
روسی سفاتخانوں کی سرگرمیاں ہوں یا اگرتلاکیس سب کو سب کچھ معلوم تھا۔
پاکستان ایک خوب تھا ۔پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔
اور مردار خوروں اور گدھوں کے پاس اللہ کا راز کیسے رہ سکتاہے۔
ہمیشہ جھوٹ سمجھا جاتا رہا ۔ لیکن اج کی حالت دیکھ کر میرا دل کہتا ہے کہ تب بھی ہم ہی تھے جنہوں نے 30 لاکھ لوگ قتل کروائے۔۔
اور ڈھاکہ جامعہ مسجد کے باہر تنی ہوئی مونچوں والے جوان کا مجسمہ بھی سچ ہی ہوگا۔