پاکستان کی بد قسمتی ہیکہ یہاں لوگ کیکڑوں جیسے ہیؐں
پاکستان میں جمہوریت کی آ ڑ میں ملوکیت کا کھیل جاری ہے ، چند دہائیوں قبل جب
“توں چور تے توں وی چور”
والی فلم بڑی کامیابی سے چل رہی تھی ، وہ کہ جو طاقت ور تھےاور گہری نظر رکھتے تھے ۔۔۔۔
انہوں نے محسوس کیا کہ نئی نسل اس فلم میں دلچسپی نہیں لے رہی ۔۔
مستقبل میں یا تو علم بغاوت بلند کر سکتی ہے ، یا آزاد سوچ کی طرف بڑھ سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔
ملکی منظر نامہ پر اک جذباتی کھلاڑی نظر ایا جو اپنی ذاتی گڈ ول میں تھوڑا بہت اضافہ کر رہا تھا ۔
وہ عجیب عجیب باتیں کر رہا تھا , جس سے اس نظام نے لوگوں کو بچا کر رکھا تھا ،
اور نئی نسل اس کی طرف متوجہ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کمپنی کے ایک اجلاس میں مستقبل کے خدشات کومدنظررکھتے مذکوره کو سیم پیج پر لانے کا فیصلہ ہوا ۔
اور پھر وہ کہ جس کی تحریک کے پاس گاڑیوں میں پٹرول کے پورے پیسے نہ تھے ،
آ سمان چھونے لگا۔چڑھتے سورج کے پجاریوں نے قبلہ بدلا اور ہر کسی کی امید بندھ گئی ،
لیکن اس سے پہلے کی 10 سال کی جدوجہد جن خطوط پر کر رہا تھا وہ اسی زور و شدت سے جاری رکھی ۔
سب ہنسی خوشی رہ رہے تھے ,
توں وی چور تے فیر توں وی چور
کی فلم نئے انداز اور نئے کرداروں کے ساتھ جاری تھی ۔۔۔۔۔۔
جہاں اسکی ضد اڑے آ نے لگی اور کمپنی نے اسکو اس کی اوقات دکھانے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔
اسی اثنا میں شہنشاہ بحر و بر ، بادشاہ کرہ ارض کا حکم آن موجود ہوا ۔
(کوئی سازش نہیں تھی ، نہ مداخلت ، حکم تھا صاف اور واضع ، تعمیل ہوئی سر تسلیم خم )
لیکن یہاں اس ضدی کھلاڑی نے اپنی 20 سال کی محنت گنوا دی ، مانا کہ اس نے چند اچھے کام بھی کیے
لیکن جس ایک کام میں ملک و ملت کا مستقبل تھا جو اس کا 20 سال سے نعرہ تھا ، بھول گیا ۔۔۔۔
چوک گیا ۔۔۔۔۔
لیکن اس دوران وہ نسل جو اسے دیوتا سمجھنے لگی تھی ، اس نے کمپنی کو حیران کر دیا ۔ اور وہ کہ جسے گم کر دیا جانا تھا تاریخ کی سیاہ چادر میں پھر سے ڈٹ گیا ۔۔۔
قوموں پر مشکل وقت آ تے ہیں اور مشکل وقت ہی قوموں کے لیے آب حیات بنتے ہیں ،
کڑے اور تلخ فیصلے تتحیر کرتے ہیں اور کمزور اپنی کمزوری لیے پچھلی صف میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔
ہماری زندگی میں شائد یہ اخری موقع ہو اس کے بعد پاکستان اگر ہوا تو وہ جانے اگلی نسل جانے ۔۔۔۔
اس رگڑے نے اس کھلاڑی کی بھی کچھ پالش کی ہے ، کئی قدم پیچھے ہٹا کر اپنے اپکو اس کھیل میں رہنے کے قابل ثابت کیا ہے ۔۔۔۔
لیکن پہلی ناکامی کے کئی جواز بن سکتے ہیں ، اس بار اگر بہکے تو ان میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ۔۔۔
ایوب خان نے جو دل چاہا کیا ۔۔
کمپنی نے بعد میں بھی اک حرف نہ بولنے دیا
ملک ٹوٹ گیا
یحیی خان آرام سے اسی ملک میں واک کرتا اپنی طبعی عمر مرا ۔۔۔۔
جنرل نیازی کلف کی وردی میں مشرقی پاکستان گیا اور قیدی نمبر 1 واپس ایا ۔
اور اپنی طبعی عمر اسی ملک میں مرا
مشرف مٹھیاں لہراتا رہا ۔۔۔۔
اپنی مرضی سے گیا اور جب واپس آ نا چاہا کوئی روک نہ سکا۔۔۔
۔پاکستان کو برباد کرنے والے کبھی سوال کا جواب تک دینا گوارہ نہیں کرتے ،
غلامی کے جو بیج ہماری نسلوں میں مسلسل بوئے جاتے رہے اپ کو قدرت نے ان سے بچا کر رکھا ، اپ وہاں رہے جہاں حکمران اور ائندہ کے حکمران تیار کیے جاتے ہیں ۔
جہاں کبھی آزاد سوچ مارنے کی جرات نہیں دی گئی ۔۔۔۔۔۔
اس ادارہ میں رہے کہ آج بھی تمام وڈے جج ، سیاستدان ، اور بیوروکریٹس کی زیادہ تعداد اور وہ کہ جو پردوں کے پیچھے ہیں سب کلاس فیلو یا ایک ہی عرصہ میں زیر تربیت رہے ۔
اگر اس جھٹکے میں کچہری بحال نہ ہوئی ،
نئے مالک کے آنے کی خوشی میں پرانے کا احتساب نہ ہوا ۔
اور کمپنی اپنی روایات کے مطابق پھر سے سابقہ کو پورے اعزاز سے روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔
تو شائد اس عمر میں کوئی موقع نہ ملے ۔۔۔۔
جزا اور سزا سب کے لیے
خان صاحب اپ ہی کا نعرہ تھا انصاف کا جزا کا سزا کا
قانون سب کے لیے برابر ہے
ایک قانون
پچھلی قومیں کیوں تباہ ہوئی
امیر کا قانون اور غریب کا اور
یہی تو نعرے تھے آ ج ہی تو ثابت کرنا ہے ۔۔۔
کون یوتھیا اور کون ہے پٹواری اور اگر سب ہنسی خوشی رہنے لگے تو یاد رکھیے سب کے سب
کیکڑے
آ دھے سبز آدھے لال
کاٹتے رہیں اک دوسرے کے بازو ٹانگیں
مداری بدلا بندر ناچے
اپنی باری پر سب ابالے جائیں گے کیا پٹواری ،
کیا جیالے کیا یوتھیے
سب تلے جائیں گے
اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ نرم لحاف تقدیر بدل ڈالیں گے تو یاد رکھیں پاکستان کو ہندووں اور انگریزوں سے آزاد ہوتے 20 لاکھ لوگ مرےاور بنگالیوں کو پاکستان سے آزادی
لیتے 30 لاکھ جانیں قربان ہوئی ۔
مزید پڑھیں