معاف کریں خود کو خود کیلئے

معافی خدائی صفت ہے

معاف کرنا اللہ کے ان اوصاف میں سے ہے جنکو بندہ اپنا سکتا ہے اور ان مالک کائنات بھی معاف کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔

وہ بندہ کتنا خوش نصیب ہے۔۔جو اک ذرا سی کوشش سے خدا کی رضا حاصل کر لے۔ ،

اہل دانش خدا کے ۹۹ صفاتی نام بیان کرتے ہیں ،اس کے علاوہ قرآن میں مزید 55 صفاتی نام موجود ہیں ، احادیث اور صوفیا و فقرا کے بیان کردہ نام اس کے علاوہ ہیں ،جن میں معاف کرنے اور درگزر سے متعلق ہیں ذیل ہیں۔۔۔

1- الرحمن (بڑی رحمت والا)قرآن میں 57 دفعہ سے زائد آیاہے.

2-الرحيم (نہائت مہربان )قرآن میں 115 دفعہ سے زائد آیا ہے۔

3-الغفار/ الغفور (گناہوں کا بہت زیادہ بخشنے والا/بہت بخشنے وال.) قرآن میں 70 دفعہ سے زائد آیا ہے

دونوں الفاظ کا ایک ہی ماخذ سے نکلے ہیں ۔

4-العفو (بہت معافی دینے والا)قرآن میں 5 دفعہ سے زائدآیا ہے

5-التواب (توبہ کی توفیق دینے والا، توبہ قبول کرنے والا) قرآن میں 11دفعہ سے زائد آیا ہے

6-ذوالمغفرۃ(مغفرت والا)۔ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُوعِقَابٍ أَلِيمٍ

معافی دینے پرانسان کوبھی معاف کردیا جاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

’’بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والامہربان ہے‘‘۔(سورۃ النور:22)

 

اب یہ کوئی آسان کام بھی نہیں ہے ، جس نے آپکے ساتھ ذیادتی کی ہو ، تکلیف دی ہو، آنسو نکلےہوں ، نقصان ہواہو ، اس کو اس کا بدلہ لیے بغیر خدا کی رضا کے لیے معاف کر دینا ۔۔۔

ایسا بالکل بھی آسان نہ ہے ۔۔۔۔

یہاں اک بات سمجھنے کی ہےکہ معافی افضل وہ ہے جب اختیار ہوتے ہوے آپ بدلہ نہ لیں ، طا قتور کواس وقت کہ جب آپ بدلہ لینے میں ناکام ہوں معاف کرنا وہ مقام نہیں رکھتا ۔۔

جو کہ ایک ایسا شخص جس پر آپ حاوی ہوں اور بدلہ لے سکتے ہوں معاف کر دینا۔

یاد رکھیں انسان کی دعا اور خدا میں ہا ئل ہو نے والی چیز اس کی انا ہے ۔۔۔۔

انا کے ہوتے وہ کہ خدا اپنی رحمت کی بارش کرے ،کیونکر ممکن ۔۔۔۔

صوفیاء فرماتے ہیکہ “دعا مانگنے سے قبل سب کو معاف کر دیا کرو “

معافی اور فلسفہ جدید

جدید فلسفہ میں معافی کے تین درجات یا حصے ہیں۔۔۔

‏۱-Exoneration (بری، سبکدوش، معافی)

‏۲-Forbearance(برداشت ، ضبط ، تحمل)

‏۳-Release(رہائی، جانےدینا، چھوڑ دینا)

ان میں فرق کیا ہے تیسرے نقطہ(Release) کا مطلب ہے ، اک بندہ شرمسار ہے ، تسلیم کر چکا ہے ، آمادگی دینا ، اور دوسرا “چل ٹھیک اے”کہ کر اپنے روزمرہ کے کاموں میں  صروٖ ہو جاتا ہے، یہ معافی نہیں ہے ۔۔۔

دوسرے نقط(Forbearance)کا مطلب اک نابالغ یا انجان ، کمزور ، ناواقف کوئی جو اپ کے زیرنگیں ہو اس کی غلطی پر ضبط کرنا،بچوں کم عقلوں سے درگزر ۔۔۔

یہ بھی معافی کی روح نہیں ہے بلکہ اصل معافی پہلا نقطہ(Exoneration) ہے جس میں دل و ماغ سے اس کی غلطی ، جرم معاف کر دیا جاتا ہے اور دوبارہ نہ اسکو احساس دلایا جاتا ہے ، نہ خود کو۔

خود کو یاد نہ کروانا

بھول جانا ۔۔۔۔۔

لسٹیں مرتب مت کریں

نمبر لگا کر دل کی الماریوں میں مت رکھیں ،

من کے کمروں کو ان منفی جذبوں کے سٹور روم میں مت بدلیں

خود کو معاف کرنا اصل میں بہت مشکل اور فوری اثر لانے والاعمل ہے,خود کو معاف کریں۔

        اذیت رسانی سے

           نفرت سے

          حسد سے

          بغض سے

         بدلہ آگ سے

         ناکام خواہشات سے

         نہ ختم ہونے والے انتظار سے

       تکیف دہ جذبات سے

       تکلیف دہ تعلقات سے(Toxic relations)

انسان اپنے اندر جذبات اور خواہشات کی ایک دنیا لیے ہوئے ہے لیکن درج بالا عوامل جب انسان اپنے اندر رکھنا شروع کرتے ہیں تو ، غیر محسوس طور پر منفی انرجی کو تحریک ملتی ہے ، جس آہستہ آہستہ انسانی صحت ، سوچ اور روح تک متاثر ہوتی ہے ۔

جب آپ کسی کے ساتھ نفرت کرتے ہیں بغض اور حسد کو دل میں رکھتے ہیں تو کیسے ممکن ہے دل میں سکوں آے ، اگر ناکام خواهشات کی عدم تکمیل کی اذیت اٹھاۓ رکھیں گے تو کیسے سوچیں یکسو اور باعمل ہو گی ،اگر بدلے کی آگ دل میں رہے تو نیند سکوں کی کیسے آے گی ۔

مثلاً اگر ایک شخص آپکو گالی دیتا ہے اور اپ اس سے فوری بدلہ نہیں لے پاتے اور اس کے اس عمل کو دل سے نکالنے میں بھی ناکام رہتے ہیں ، تو وہ شخص تو شائد آپ کو اور اس عمل کو چند گھنٹوں بعد بھول بھی جاۓ ، آپ اپنے وجود کو مسلسل اذیت دیتے رہیں گے سوچتے رہیں گے اور کڑہتے رہے گے۔

 

خود پر ظلم مت کریں

ظلم کرنے والا ایک دفعہ ظلم کرکے شائد بھول بھی جاے لیکن ،مظلوم اس ظلم کا بوجھ اٹھاے پھرتا رہتا ہے اور اسی بوجھ میں اس کی شخصیت ختم ہو کر دفن ہو جاتی ہے۔

یہی تکلیف جب اندر پروان چڑھے خیالات اور جذبات پراگندہُ ہونے لگتے ہیں ۔۔بے سکونی،ناشکری ، افسردگی،اداسیت،بیماری سب ہاوی ہو جاتے ہیں

جیسے جیسے اندر بدبو بڑھتی ہے اس کے اثرات سوچ جسم چہرے گفتگو، رویوں آور خاص کر آنکھوں میں اترتے ہیں ۔ ہر عمل کو اکُ خاص عینک سے دیکھنے پر غیر ارادی طور پر مجبور ہو جاتا ہے۔معاف کت دینا ذات کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔جذبات کو روکیں مت بہہ جانے دیں کتھارسس یہی ہے۔

جتنے بھی بڑے فلسفی دنیا میں آۓ معاف کردینے کو انسان کی شخصیت کے لیے بنیادی وصف کے طور پرگنتے ہیں

افلاطون اور ارسطو نے معافی کو ،انتظامی سطح معاشرہ کے لیے زہر قاتل سمجھا ہے ، انصاف اور عدل کی رو سے لیکن جب بات فرد واحد کی انندونی تکلیف کی ہو ۔

 

سقراط اور معافی کا فلسفہ

سقراط کہتا ہے۔

“رب کو سمجھنے کے لیے اور حکمت پانے کے لیے معاف کرنا ضروری ہے”

اسی طرح مزید کہتا ہے:

“ نسل انسانی کو روح سے زیادہ خیال مال و دولت اور مقام و نام کا رکھتے ہیں ،روح کی بھلائی معاف کرنے میں ہے۔۔”

اس کا ماننا تھا:

“ خدا کی طرف سے اس کا مشن اپنے ہم وطنوں کی جانچ کرنا اور انہیں اس بات پر قائل کرنا ہے کہ انسان کے لیے سب سے اہم بھلائی روح کی صحت ہے۔”

اصل معافی کیا ہے۔

سچی معافی “جانے دینے “سے بالاتر ہے ،کچھ مثبت پیش کرنا۔ مجرم کے تئیں ہمدردی، اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا،مشکل ہے مگر کیے جانے کے قابل عمل ہےاور فوری اثر لانے والا عمل ہے۔۔۔

 

شیکسپیر اور معافی

اور شیکسپیر نے تو معافی کے فلسفہ کو کوزےبند کر دیا

تفصیل کھول دی۔۔۔۔

“رنجش، انتقام اور انتقام کے لیے ادا کی گئی خوفناک قیمت۔ ان جذبات کے زیر اثر دردناک واقعات ذہن میں موجود رہتے ہیں، جو ہماری سکون اور خوشی تلاش کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں۔”

 

اب شیکسپیر نے ہی اسکا علاج ۔۔۔۔

‏It is in pardoning that we are pardoned

‏pardon him, as God shall pardon me

اصل معافی ہے کیا ، اختیار ہوتے ہوۓ معاف کرنا ، خود کو روکنا کتنا مشکل ہے اور کسی کو معاف کرنے سے شائد اسکو فرق نہ ہڑے لیکن اپنے آپ پر گویا احسان کیا ہو۔

 

معاف کرنا سنت رسول ﷺ

اور کیا ہی افضل زندگی گزاری ہمارے نبیﷺ نے انکی زندگی ہمارے لیے مشئل راہ ہے ۔۔۔

وحشی جب 8ہجری میں طائف کے ایک وفد کیساتھ مشرف بہ اسلا م ہونے مدینہ منورہ آئے اور نبی کریم (ص)کواس کی اطلاع دی جاتی ہے تو ارشاد فرمایا:

’’ اسے آنے دو،ایک شخص کا مسلمان ہونامیرے نزدیک ہزار کافروں کے قتل سے بہتر ہے۔‘‘

یہ فرماکر اس کی تمام غلطیوں کو معاف کر کے اسکا اسلام قبول فرمالیتے ہیں۔ اسے نصیحت کرتے ہیں:

’’اے وحشی! بے شک تم دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئے ہولیکن ممکن ہو تو میرے سامنے مت آیاکرواس لئے کہ تم کو دیکھ کر پیارے چچاکی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی کا بہت خوبصرت تحفہ دیا ہے ، اسکا لطف لیں شکر ادا کریں ، اہنے آپکو منفی جذبات سے آزاد کریں ، یہی منفی جذبات دکھ تنہائی آوارگی کا باعث بنتے ہیں سونے سے قبل معاف کر کے سوئیں اور خدا سے اپنے عملوں کی معافی مانگیں ۔۔۔

معاف کریں تاکہ معاف کر دیے جائیں

Naveed

I am an ordinary man.

Related post