مکھی
مکھی اللہ کی ایک نھنی منی مخلوق ہے ، بے ضرر چھوٹی سی دیکھنے میں بالکل بے ضرر۔۔۔۔
لیکن یہ نھنی سی مخلوق اسقدر طاقت ور ہیکہ کئی صدیوں کی قدرتی آفات طوفان حادثات برداشت کر کے بھی آج ہمارے درمیان موجود ہے۔
مکھی کی خوبی
مکھی میں خدا تعالیٰ نے بہت سی صفات رکھی ہیں۔
لیکن اس کی سب سے بڑی صفت گند یا غلاظت کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ مکھی کی ڈیوٹی ہیکہ گندگی کی نشاندہی کرے۔
غلاظت جہاں ہوگی مکھی وہاں ہو گی اور جب تک گندگی رہے گی تب تک مکھی موجود رہے گی۔
صفائی نہ کی جائے تو یہ مکھیاں اپنی بھنبھناہٹ سے انسانوں کو زچ کر دیتی ہیں کہ انسان مجبورا نہ چاہتے ہوئے بھی نصف ایمان کو مکمل کرتا ہے۔
مکھی نما لوگ
انسانوں میں بھی مکھی کی جیسی صفت کچھ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
یہ لوگ خدا کی بنائی ساری دنیا میں سے صرف وہیں توجہ مرکوز کریں گے جہاں خرابی ہو گی۔
ہمیشہ نقطہ چینی کرتے لوگوں کے عیب ظاہر کرتے اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرتے نظر ائیں گے۔
ہر خرافات پر انکے قہقہے بلند ہوں گے۔
انکے ساتھ پانچ منٹ گزار کر آپکو فورا اندازہ ہو جائے گا کہ کس کی آڈیو آئی ہے کون کس کے ساتھ تھائی لینڈ گیا۔
الغرض انکی اپنی ذات ایک ایسے پیپ زدہ زخم کی سی ہو جاتی ہے جو صرف معاشرہ میں بدبو اور بیماری ہی پھیلا سکتا ہے۔
انسانی مکھیاں اسقدر خطرناک ہیں کہ انکی گند میں رہنے اور گند بانٹنے اور غلاظت اچھالنے کی عادت کی وجہ سے معاشرہ کے اچھے لوگ اپنا دامن بچاتے پیچھے ہٹتے جاتے ہیں اور مکھیوں کے کھیلنے کو میدان وسیع ہوتا جاتا ہے۔
مکھی سے کیا سیکھنا چاہیےا
خدا تعالی نے کوئی کوئی بھی مخلوق بے کار نہیں بنائی۔
اگر کسی جگہ صفائی نہ ہو اور مکھی کی امد پر بھی صفائی نہ ہو، تو مکھی اپنی ڈیوٹی سر انجام دینا شروع کر دیتی ہے۔
مکھی اس گندگی میں انڈے دیتی ہے اس کے لاروے اس کوڑے کرکٹ کو نامیاتی کھاد میں بدل دیتے ہیں جو زمین کی زرخیزی کا باعث بنتی ہے۔
کوڑے کا ایک ڈھیر دیکھتے ہی دیکھتے بھربھری مٹی میں بدل جاتا ہے۔
انسانی مکھیاں کوڑے کو زرخیزی میں تبدیل کرنے، بدی کو اچھائی سے ختم کرنے اور عیبوں پر پردہ ڈالنے کے اوصاف کو اپنانے میں ناکام رہی ہیں۔
ہم انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔
ہماری سوچیں ایک دوسرے سے منعکس ہوتی ہیں۔
ہمارے رویے ایک دوسرے کے تابع ہیں ۔
آپ غور کریں جو لوگ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اسی کاروبار سے منسلک لوگوں سے ملتے ہیں وہ کسی دوسرے موضوع پر نہ تو بات کر پاتے ہیں اور اگر کسی دیگر موضوع کی محفل میں ہوں راحت محسوس نہیں کرتے۔
ہر شعبہ زندگی میں اسی طرح لوگ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے عکاس ہیں۔
آج ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ
” بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا “
“اکیلا بندہ کیا کر سکتا ہے“
“میرے کرنے سے کیا ہو گا“
ہماری تبدیلی کی چاہ اور تمام درستگیاں ہم دوسروں سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔
ہم ہر دوسرے شخص کو تو روکتے ہیں، لیکن خود پر کوئی ایک بھی عمل بھی بدلنے کرنے کو تیار نہیں۔
کھبی بھی جبر سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تبدیلی مستقل مزاجی اور آہستہ آئے تو پائیدار اور مثبت نتائج لاتی ہے۔ جبکہ یہی بدلاو اگر طاقت جبر یا انقلاب کے ساتھ آئے تو ہمیشہ تکلیف دہ نتائج کا باعث بنتا ہے۔
کسی کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہمیں اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی اچھائیاں اگانے کی ضرورت ہے۔
چھوٹے چھوٹے سفید پھول کھلانے چاہیں جو ہماری اپنی روح کو معطر کریں۔
جب ہماری بری خصلتوں کی جگہ ہمارے رویوں سے اچھائی منکعس ہونے لگے گی۔
خود بخود معاشرہ گدھ راج سے اشرف المخلوقات کے مقام کہ جانب مائل بہ سفر ہوگا۔