مظلوم ہیرو اور گمشدہ نسلیں
کچھ عرصہ قبل میں ایک ایسے دور سے گزرا جب مجھے یقین ہو گیا کہ ہماری مٹی بانج ہے۔ اس نے کھبی کوئی ہیرو ایسا پیدا نہیں کیا جو ڈوبتے جہاز کو آگے بڑھ کر درست پیشوائی کرتے کنارے لگا سکے۔ہماری کتابوں سے تمام ایسے لوگ غائب کر دئیے گئے جو ہمارے اور ہم بعد آنے والوں کے لیے مثالی ہوتے۔
ہیرو کیوں ضروری ہوتے ہیں؟
دنیا کےترقی یافتہ ممالک اپنے ہیرو مرنے نہیں دیتے، ہر ملک نے اپنے کچھ ہیرو زندہ رکھے ہیں تاکہ اگلی نسلوں کو انکی ذات کی صورت میں اک فکری تجربہ گاہ میسر رہے۔
ہیروز جیتی جاگتی کتاب ہوتے ہیں ، انکے ہر قدم پر ہر عمل پر مختلف زاویوں سے بحث ہوتی ہے۔ اس بحث سے انسانی نفسیات ، رویوں، محرکات اور حقائق کے بارے سیر حاصل نتائج اخذ ہوتے ہیں، مزید آنے والی نسلیں دوبارہ ان نتائج پر سماجی تبدیلیوں اور بدلتے حالات کو لاگو کر کے نئی کسوٹی پپر پرکھتی ہیں اور نئے نتا ئج اخذ کرتی ہیں۔
ہیرو مثال ہوتا ہے؟ کس طرح حالات سے لڑ کر منزل تک پہنچنا ہے، ہیرو کا وجود معاشروں کو زندہ اور توانا رکھتا ہے۔
مجھے زندگی میں دو یا تین لوگوں کو ہی پڑھنے کا موقع ملا ہے ، ایسے لوگوں کو جنہیں انکی قوموں نے آج تک سیکھنے کے لیے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اور ہر دوسرے معاملہ میں تاریخ سے کوئی نہ کوئی سبق نکل کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
میں قومی ہیرو کی دستیاب تعریف سے تھوڑا اختلاف رکھتا ہوں۔
آپ کا ہیرو کون ہے؟
پاکستان میں قومی ہیرو صرف جان دے دینے یا لینے والے ہوتے ہیں ۔۔۔
پاکستان کی ہیرو کی تعریف سے ہیرو خود ہار جائے۔
پوری پوری نسل بچپن میں فوجی بننے کا خواب لیکر پروان چڑھتی ہے اور زندگی کے باقی شعبہ جات تو حادثاتی یا بچ جانے والوں کی مایوسی کے نتیجے میں پورے ہوتے ہیں ۔
مزید کتابوں میں زہر بھرکر سوچوں کو تشدد سے بھرنے کی ایک ترکیب یہ عمل پذیر ہوئی، کہ نہ صرف ہمارے سارے ہیرو بدل دیئے گئے، بلکہ لیڈر کی تعریف بھی کسی ایسے فرد کے طور پر کر دی گئی کہ دستیاب فہرست شائد کسی بھی فرد کے لیے لیڈر قرار دیا جانا ناممکن ہوگیا ہے۔
مذہبی شدت پسندی مطلوب تھی،سو پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ کو اپنا حصہ سمجھنے والے اقلیتی برادری کے لوگوں کو کتابوں سے غائب کر دیا گیا۔
کوشش کریں تین ایسے نام لیں جو اقلیتی پاکستانی ہیرو ہیں؟
یقینا نہیں لے پائیں گے،
قرار داد لاہور 1940 میں پیش ہوئی، اس سے قبل ہمارے ہیرو مشترک تھے۔
مسلم لیگ کے قیام اور ملکی سطح پر متحرک ہونے سے قبل کون لوگ تھے جو بر طانوی سامراج سے ٹکراتے تھے۔
ہیرو
ہیرو عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، ہیرو اپنے دور کے نیم پاگل لوگوں میں شمار ہوتا ہے، بے وقوف قرار دیئا جاتا ہے،
ان لوگوں کو سماج رسم و رواج اور روایات کی بنائی حدود نظر نہیں آتی، اپنی منزل خود طے کرتے ہیں اکیلا کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ معاشرہ انکو چھوڑ دیتا ہے، انکی ہمت توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کھبی دیس نکالا ملتا ہے تو کھبی اپنی بنائی کمپنی سے بے دخلی ۔۔۔۔
دنیا نے آج تک جتنی بھی ترقی کی ہے سب کی سب ان نیم پاگلوں کی دین ہے ذہین اور سمجھدار لوگ جب اپنی ذہانت اور علم کے زعم میں ممکنات پر سیر حاصل گفتگو کر رہے ہوتے ہیں تب یہ لوگ ناممکن کی آخری حد ٹھکرا کر منزل حاصل کر کے اگلی منزل کی جستجو میں جل رہے ہوتے ہیں ۔
ہاتھ میں پکڑے موبائل فون سے لیکر سامنے جلتے بلب تک اور عرب سے نکلے کم تر ہتھیاروں والے جنگجووں سے لیکر بابا قائد جناح تک سب میں ایک چیز مشترک ہے۔
ان کو پتہ تھا کہ “منزل کیا ہے” اور
“جانا کدھر ہے”
اور اس کے بعد یہ معاشرہ انکو قائل نہیں کر سکا کہ “ناممکن” ہوتا ہے۔
ہر ممکن کام ہو جانے تک ناممکن ہی ہوتا ہے
ممکن بنانا پڑتا ہے، ہوتا نہیں ہے
کامیابی کا کلیہ کیا ہے؟
دنیا میں کامیابی ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ فرد کے پاس اعلی درجہ کا ہنر ہو بلکہ کامیابی کا راز مسلسل جدوجہد کا نام ہے، انتھک محنت کا نام ہے۔ کوئی بھی فرد آج تک پہلے دن ہی کامیابی حاصل نہیں کر پایا کامیابی تو ثمر ہوتا ہے اس پاگل پن کا جو دنیا سے الگ چلنے والے کو ملتا ہے اور مزید کہوں تو کامیاب لوگوں کا اس ثمر کے حصول کے بعد بھی نہ رکنا بتاتا ہے کہ
جستجو ہے خوب سے خوب تر کہاں
ٹھرتی ہے دیکھئے جاکے نظر کہاں
تاریخ نوحہ کناں ہے ہماری بے حسی پر ، ہماری کتابون میں مہوش حیات اور سرفراز ہیرو ہوگئے ،ریاست مدینہ کے سفر میں تھے کرگسوں کے دیس آپہنچے، ایدھی صاحب تک تاریخ ختم۔
ایدھی صاحب بڑے آدمی ہیں، انکا ہیرو ہونا سب کو پسند ہے، اپنی منزل جو انہوں نے طے کی اس میں نام کمایا۔۔
لیکن کیا زکوت اور خیرات اکھٹی کر کے مظلوموں کی روٹی مہیا کرنا بہتر ہے یا انڈسٹری لگانا یا قانونی طور پر مظلوم کو انصاف دلانا۔۔
آج پکھی واس اور بھکاری بن کر رہ گئے ہیں، اور حتمی انصاف کے لیے قیامت کے منتظر۔۔۔۔
ہم حسین والے تو ہیں لیکن مظلوم کی خاطر کھڑے نہیں ہو سکتے۔
ہم کوفہ والوں کی طرح اچھے کی امید میں خاموش رہتے ہیں۔
ہم علی والے تو ہیں، لیکن قدم ہمارا گھر کے گیٹ تک نہیں جاتا ۔
علم سے بے پرواہ ہم خارجیوں کی طرح ہیں۔
پچھلی نسل کے اچھے لوگ مجرم ہیں آج پاکستان کی اس حالت کے، کیونکہ انہوں نے ہی یہ سب کیا ہے۔ ہماری اگلی نسل اور اس سے اگلی نسل بے مقصد بے سمت بے تحاشا رفتار اور بغیر کسی منزل زندگی گزار کر بے نام و نشان ہوں جائیں گے۔
اور ہم ہی کہلائیں گے گمشدہ نسلیں جو لاعلم رہیں “کہ ائے کہاں سے ہیں میراث کیا ہے”
نکلے کیوں تھے منزل کیا تھی۔
جن دنوں وزیراعظم شہباز شریف صاحب کو تھپڑ مارے جانے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، جذباتی تاثرات ریکارڑ کرتے فیلبدیح دل سے یہ فقرے نکلے۔
اقبال جو ٹکرے اونوں روک بٹھاواں
اک اک کرتوت اونوں کھول سناواں
اونوں سامنے بٹھا ہر شکوہ لکھاواں
فیر اوس شکوہ دا اودے توں جواب لکھاواں
اے شاہیناں دا نہیں اے کر گس دا دیس اے
پنڈے شیں دے تے دل مردار وکھا واں
میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ دنیا اللہ کے لاڈلے خلیفہ کے لیے بنی ہے ساری قوتیں اسی خلیفہ کے سامنے سر نگوں ہیں، کائنات سے کمیونیکیشن بن جائے، رابطہ بحال ہو جائے تو طلب کو عطا بنتے اک لمحہ درکار ہوتا ہے۔۔۔
شائد اس لمہے طلب کجھ زیادہ ہو گی ۔۔۔
اقبال مل گئے اصلی والے
ایک نے شعر و شاعری سے خون گرمایا تو دوسرے نے اگے بڑھ کر ڈٹ کے لڑ کے اپنا آپ منوا کے دکھایا۔
میرا ایک پرا جیکٹ گمشدہ ہیروز جس پر اچھا خاصا کام کر چکا تھا،انداز بدلتا Brutally Ignored Iqbal میں بدل گیا۔۔۔۔
(جاری ہے)