نسلوں کی غلامی خون سے کیسے جائے؟

رویے اور ردعمل کتنے اہم ہیںِ؟کیا رویوے کنٹرول ہو سکتے ہیں؟، خون میں غلامی ہوتی ہے اگر ہے تو کیسے جائے؟

روئیے اور ردعمل

رویے، رد عمل کا نام ہے، کس طرح کسی پم کسی خاص عمل کا ردعمل دیتے ہیں۔

 رویے بنتے ہیں جذبات ، احساسات ،روایات ِ محسوسات ،اور اس کے ساتھ پیش آمد حالات میں فیصلہ سازی اور اس کے اثرات سے۔ اور یہی رویے فیصلہ کرتے ہیں غلام ابن غلام ہونے کا۔

سادہ لفظوں میں ہم کسی بھی بات یا موقع پر کیا کرتے ہیں، چل رہن دے کہ کر چل پڑتے ہیں یا ڈٹ کر آپنا حق لیتے ہیں۔

رویے ہی فیصلہ کرتے ہیں کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا  ، انسانی ذہین کی ساخت ہی یہ بات سمجھا سکتی ہے۔۔

سوچ کی ارتقاء

انسان آج سائنس کی اس معراج پر پہنچ چکا ہے، کہ دنیا کو چھوڑ کر نئی دنیا بسانے کیےخواب دیکھ رہا ہے نئی ایجادات کر رہا ہے کمالات کر رہا ہے ۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس روز اپنے بنائے ہوئے ریکارڈ توڑ خود توڑ رہی ہے ۔۔۔۔۔

 اتنی ترقی اور کمال کے باوجود انسان اپنے دماغ کے آگے ہار جاتا ہے انسان اپنی سوچ ہار جاتا ہے ,آپ کو مزید حیرت ہو گی کہ انسان کی سوچوں کو لاشعوری طور پر کنٹرول کیا جاتاسکتا ہے۔  ہم غیر محسوس طریقے سے روبوٹ کی طرح ہی کام کر رہے ہیں ۔۔۔

انسانی دماغ بہت ہی پیچیدہ اور مشکل سے سمجھے جانے والے چیز ہے ،  انسانی دماغ کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصے کو برین  کا نام دیا ہے ، دوسرے حصے کو مائیڈ نام سے پہچانا جاتا ہے۔

برین کیا ہے ؟

برین انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے جو عام طور پر مادی وجود رکھتا ہے ، جسے ہم چھو سکتے ہیں،  محسوس کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔

برین کے بارے میں جو ریسرچ یا تحقیق ابھی تک سائنس نے کی ہے. اس کے مطابق ،جیسے ہی انسانی اس دنیا میں آتا ہے،تو اس میں بڑھوتری کا عمل شروع ہو جاتا ہے. اور یہ بڑھوتری کا عمل اس قدر  منظم اور تیز ہوتا ہے کہ انسان جب پانچ سال کا ہوتا ہے. تو انسانی دماغ کا نوے فیصد حصہ تکمیل پا چکا ہو گا. نوے فیصد حصہ تکمیل پانے کے بعد باقی دس فیصد حصے کے لیے برین آہستہ آہستہ اپنی ہیت میں اضافہ کرتا رہتا ہے. اور اٹھارہ سال سے بیس سال کی عمر تک زیادہ ترافراد میں مکمل ہو جاتا ہے۔

لیکن کچھ لوگوں میں کمزوریوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ عمر پچیس سال اور شاز و تیس سال تک بھی ہوتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔

اس دوران بریں  پر جو سب سے زیادہ عوامل اثر انداز ہوتے ہیں

 1- نیوٹریشنز مناسب خوراک کی کمی ،انسانی رویے

2- بچے کا اپنے آپ کو غیر  محفوظ محسوس کرنا

3- اپنے آپ کو تنہامحسوس  کرنا اور تنہا رہنا

4- احساس کمتری محسوس کرنا

 یہ وہ عوامل ہیں جو انسانی دماغ کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

ذہین کیا ہے ؟

دماض کی وہ حصہ جسے ہم چھو دوسرا حصہ انسانی ذہن کاوہ حصہ ہے ،جس  کوہم چھو نہیں سکتے یہ سوچوں کا حصہ ہے یہ تخیل  کا حصہ ہے.

انسان پیدا ہوتے ہی تین سال تک بالکل اپنے اردگرد سے غیر محسوس طریقے جذب کرتا ہے۔  جس کے بارے میں سائنسدان  (فوم ) سپنج کا لفظ استعمال کرتے ہیں،   بچہ شکلیں پہچانتا ہے, آوازیں پہچانتا ہے, بیٹھنا, لڑھکنا, چلنا, کھڑے ہونا, کھانا ہر وہ چیز سیکھتا ہے جو اس کے لیے ضروری ہو. اس کے بعد تین سال سے آگے کی عمر میں آہستہ آہستہ میچورٹی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

جادوئی عمر/کنکریٹ ایج

فیصلہ  سازی، بنیادی در عمل، سات سال کی عمرمیں سیکھتا ہے، اس عمر کو کومیجیکل فگر کہا جاتا ہے یہ اس قدر اہم ہے کہ انسان پوری زندگی اسی وقت کی پروگرامنگ کے زیر سایہ گزار دیتا ہے . انسان جذبے رویے،ردعمل , ردعمل دینا اسی عمر میں سیکھتا ہے.انسان کی پوری پرسنیلٹی صرف اسی کے گرد گھومتی ہے. بچہ سات سال تک غیر محسوس طریقہ سے جو چیزیں اپنے اردگرد سے سیکھتا ہے انہی پر اسکا مستقبل طے ہوتا ہے۔

یہیں فیصلہ ہو جاتا ہے کہ انسان نے کہاں تک جانا ہے ،سختی باز پرس شرارتوں سے روکنا ، نقصان یا چیزیں ٹوٹ جانے کا خوف، کسی جن یا جانور کا خوف کبھی بھی اسکو بروقت اور دلیری سے اپنا راستہ چننے نہیں دیتا صرف پیچھے چلنا اور جی حضوری ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔

لاشعور کی شعور میں اہمیت

ذہیں  کے صرف پانچ فیصد حصہ پر ہم  اپنی دسترس رکھتے ہیں. اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں. اپنے تمام روزمرہ کے معاملات ،پڑھنا، لکھنا صرف اس پانچ فیصد میں ہوتا ہے۔اسے شعور ا   کہتے ہیں۔

 ذہیں کا پچانوے فیصدحصہ  لاشعور کہلاتاہے  ،انسان اپنےذہین کاپچانوے فیصد حصہ لا شعوری طور پر استعمال کرتا ہے.  اسے آسانی سے اس ظرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح کمپئوٹر کو چلانے کے لیے ونڈو کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس حصہ میں وہ سافٹ وئیر انسٹال ہوتا ہے جوایک پیچیدہ انسانی دجسم کو چلانے کے لے منظم رکھنے کے لیے ضروری ہوتاہے۔

انسانی وجود کو ایک بہت کمپلیکس مشین کی صورت میں بنا ہے. اس مشین کو چلانے, دوڑانے, بھگانے اور اس کو بہتر انداز میں منظم رکھنے کے لیے ایک طاقت ور سسٹم اور پروسیسر کی ضرورت یوتی ہے  . یہ ونڈو پیدائش سے سات سال کی عمر میں انسٹال ہوتی ہے. اور پھر ہم اسی سسٹم کے اوپر چلتے ہوئے اپنی تمام سوچیں, رویے, ردعمل دیتے چلے جاتے ہیں, غیر محسوس طور پر اپنے رویے اسی کے تابع ہوتے ہیں۔

یعنی لاشعورہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر انسان کے تمام رویے رد عمل اور فیصلے ترتیب پاتے ہیں۔

سرکس کا ہاتھی

آپ نے سرکس کے ہاتھی والی مثال تو سنی ہو گی. ہاتھی کے بچے کوایک رسی سے  باندھ دیا جاتا ہے، زور لگاتا ہے مگر  اس  رسی کو نہیں  توڑ توڑ پاتا.مسلسل کوشش سے وہ یہ تسلیم کر لیتا ہے اس کے لاشعور میں سب کانشیئس مائنڈ میں فیڈ ہو جاتا ہے. کہ وہ یہ رسی نہیں توڑ سکتا.

اور پھر بھر پوری جوانی میں  جب وہ اس  کی طرح کے دس رسے توڑ سکتا ہے. وہ ایک رسی ، ہی اس کا لاشعور اس کو توڑنے نہیں دیتا.

پاکستان کے 55% فیصد بچے ،غذائی قلت کی وجہ سے دماغ کی نشورنما نہ ہونے کی باعث ذہانت کی ریس ہار جاتے ہیں ۔

پاکستان کا مستقبل

موسیقی اور فیشن

اسی بات کو ہم اپنی زندگی میں ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں.

آپ نے کبھی غور کیا ہےَِِِِِ؟

ایک خاص عمر کے بعد لوگ فیشن میں جدت ترک کردیتے ہیں، نئی موسیقی سننا بند کرتے ہیں ۔ ان کا ذہین جس جگہ رک جاتاہے، جس جگہ مکمل ہو جاتا ہے، اسی دور کے میوزک  یا اس طرح کے میوزک کو سنتے ہیں اور اگلے یا بعد کے زمانے کو نہیں اپنا پاتے۔  انکا  برین ڈویلپ ہونا مکمل  ہوا وہیں پر رک جاتے ہیں، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بعض سیاسی یا اخلاقی نظریات اس مقام تک پختہ ہو جاتے ہیں. کہ کسی ماننے والے کو جتنا بھی قائل کر لیں , سمجھا لیں . آپ نظریات  کو تبدیل نہیں کر پاتے۔

تسلیم شدہ حقیقت ہیکہ دلیل سے صرف آپ ایک فیصد لوگوں کو قائل کر سکتے ہیں، 99 فیصد لوگوں پر آپ کی دلیل کا اثر نہیں ہوتا.

اس لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ  کہاں اور کس نقطہ پر ذہیں مکمل ہوا، نیورو پاتھ  کب آ کر مکمل ہوتے ہیں۔

کیا دماغ اورزہین کا آپس میں کنکشن ہے۔

روایات کی منتقلی اور نئی نسل

ہر نسل نے اپنی پچھلی  نسل سے روایات، ردعمل نظریات رسم و رواج  نسل کو منتقل کرنے ہوتے ہیں یہ قدرت کے ارتقاء کا صدیوں سے چلتا ایک نظام ہے۔ لیکن آج کے معاشرہ کی بدقسمتی یہ ہیکہ جس نے وہ تمام روایات، ردعمل اور علم ہم تک منتقل کرنا تھا زمانے کی  بدلتی کروٹ میں کھو کر ہم اجداد کی ورثہ کہیں نوسربازوں کو دے آئے۔ آج کی نسل جس نے اپنے بڑوں سے ہماری ہمارا ورثہ لینا تھا اور تاریخ گزری نسلوں سے بالکل کٹ کر رہ گئی،  جب بچہ نے بڑوں کے ردعمل سے سیکھنا ہوتا ہے جذب کرنا ہوتا ہے اسکو ایک بھاری بیگ کے ساتھ سکول اور ٹویشن روانہ کیا جاتا ہے۔ آج کا بچے بازار سے سیکھتے ہیں۔ اور یہ بات یاد رکھیں، آج کی نوجوان نسل جو بے راہر قرار پائی ہے اسی بازار ٹیویشن اور لاوارثی کی دین ہے۔

“اور جو ہمارے بچے سیکھ رہے ہیں “وہ ہم نے سہنا ہے”

کیا لاشعور کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟

جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ کس طرح ایک بچے کا ذہیں اپنے اردگرد سے سیکھتا ہے ۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی بچے کی زندگی کن خطوط پر گزرے گی اس کا فیصلہ اس کے ماں باپ اس کی پیدائش کے اولیں سالوں میں کر دیتے ہیں ۔ ہر وقت ڈرے سہمے شرارت نہ کرنے والے اور نقصان سے خوف کھانے والے بچے کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتے ۔

بڑھوتری کی عمر میں کوئی بھی واقعہ، حادثہ بچے کی نفسیات پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے اور تا عمر ایک ٹرگر کی طرح ، جو ایک خاص موقوع یا وقت پر سامنے آتے ہیں ۔ بچپن کی محرومیاں اور تلخیان تمام عمر ساتھ چلتی ییں۔

مثال کے طور پر ہمارے اردگرد کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں کی کس بات پر ٹرگر ہوں گے ، اور دوست احباب اکژ  انکا اس بات پر مذاق ببناتے ہیں اور وہ لوگ چاہ کر بھی اپنے آپنے آپکو تہ شدہ  ردعمل دینے سے نہیں روک سکتے۔

ان عوامل کو ایموشنل ٹرگر کہا جاتا ہے ۔اور ان سے پیچھا چھڑانا خاصا مشکل کام ہے۔

مرزا غالب کی فضول ضرچی کی وجہ

مرزا غالب کی مثال اکثر ایک فضول خرچ اور اپنی آمدن سے زائد خرچ کرنے والے شخص کے طور پر دی جاتی ہے۔لیکن مرزا غالب نواب تھا، وہ نوابوں کے خاندان میں پرورش پا کر بڑا ہوا تھا، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نوابوں ہی کی طرح رہتا اور خرچ کرتا رہا۔۔

ذہن یعنی  ہمارا لاشعور ہی ہمارے روئیے بناتا ہے اور ہماری اگلی نسل ہمارے روئیوں سے اپنی سوچیں

یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہیکہ لاشعو شائد شعور سے بھی زہادہ اہم  حصہ ہے کیونکہ ہم اس پر تمام تر کوشش کے باوجود بھی مکمل کنٹرول نہیں پا سکتے جو نیورو پاتھ بن چکے ہوتے ہیں ان میں  ایک خاص حد سے زیادہ ان میں ترمیم نہیں کر سکتے ۔ اگر مستقبل بدلنا ہے تو اپنے رویے بدلنا ہوں گے ایک نسل سے اقدار اور روایات ک دوسری نسل میں منتقل کرتی ہے۔خوں میں کچھ نہیں ہوتا ، ہمارے رویے ہی ہیں ، جو آزادی اور غلامی کا فیصلہ کرتے ہی یہی رویے وفا اور غداری سکھاتے ہیں۔

یہی روئیے اگلی نسل کی سوچوں کی حد مقرر کرتے ہیں ،

رویے سوچیں بنتی ہیں, اور نسلیں لاوارث ہو جاتی ہیں.

کیا لاشعور کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟

ہمارا تعلیمی نظام ایک خاص مقصد سے بنا ہے۔ تعلیمی نظام ایک خاص مقصد کو مد نظر رکھ کر ڈیزاہن کیا گیا ہے، اس کا بنیادی مقصد دماغوں کو ماؤف کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔

جس میں وہ کامیاب بھی ہیں ۔کس طرح پڑھئیے۔

the policy and educational system of pakistan
Educational System of Pakistan

مشترک موضوعات

Naveed

I am an ordinary man.

Related post

7 Comments

  • Kamaal likha ha bahi

Comments are closed.