پکھی واس
خط غربت سے نیچے انسانیت کی اخری حد پر رہنے والے لوگ دنیا کے حالات اور اردگرد ہونے والے تمام واقعات سے لاتعلق رہتے ہیں.
انکا کل اثاثہ چند لکڑیوں پر بنی جھونپڑی اور چند کپڑوں کی گھٹریاں ایک یا دو جھولے اور چند مرغیاں ہوتی ہیں ۔
یہ لوگ بارش ہو طوفان ہو کیسے بھی حالات ہوں اپنی انہی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں رہتے ہیں،
کبھی دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں اور کبھی ایک وقت کی۔
غلاظت میں رہتے ہیں بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے صحت کی سہولتوں سے نا آشنا۔
محنت کرنا گناہ سمجھتے ہیں ۔
کوئی ایک کام ٹک کر نہیں کر پاتے کبھی بدرنچاتے ہیں کبھی جھولے چلاتے ہیں
آپس میں انکی لڑایاں مشہور ہیں۔
ساراسارا دن لڑ سکتے ہیں زبانی کلامی ۔۔
خوداری نام کو نہیں ۔۔۔۔۔
لیکن شادی بیاہ فوتگی اور بچوں کی پیدائش پر خوب خرچا کرتے ہیں ۔۔
ہر وقت قرض میں جھکڑے رہتے ہیں ۔
انکی جھگیاں رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجی ہوتی ہیں جھولے چمکا کر رکھتے ہیں نیس پینٹ نیا اور رنگ برنگی لائٹیں ۔
ہر اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں سے آمدن کہیں غلطی سے ہو نہ جائے ۔
کبھی ایک قرض خواہ گالیاں دیتا یوا گزر جاتا ہے۔
کبھی دوسرا دھمکیاں دیتا ہے ۔
اور رات گئےبدبودار جھگیوں میں
رب کی رضا قرار دے کر پرسکون ہو کر سو جاتے ہیں ۔
اسحاق ڈاع صاحب نے درد دل کے ساتھ فرمایا ہیکہ پاکستان اللہ نے بنایا ہے اور وہی اسکو چلائے گا۔