پراجیکٹ عمران خان نیازی

پراجیکٹ عمران نیازی ملکی تاریخ کا شائد سب سے پیچیدہ اور کامیاب پراجیکٹ رہا ہے، اور سب سے زبردست بات یہ ہیکہ اس پراجیکٹ میں عمران خان نیازی شامل نہیں تھا۔ 

ملکی سیاسی  تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ میاں نواز شریف کی آمد تھی ، انکی آمد سے پہلے اور بعد کی طرز فکر اور طرز عمل میں واضع تبدیلی آئی، لیکن جمہوریت کا دکھلاوا کر نے کے لیے کم از کم دو سیاسی پارٹیوں کا اکھاڑہ میں ہونا ضروری ہے، سو  پیپلز پارٹی اور بھٹو دونوں زندہ رہے، پھلتے پھولتے رہے اور دونوں جماعتوں کی قیادت اور نچلے درجے کے محلہ کی سطح کے چوہدری بھی خوب سیراب ہوئے۔ 

دونوں سیاسی پارٹیاں ہمیشہ ایوان اور میڈیا میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ ڈالنے کی بڑھکیں لگاتی لیکن حقیقی معنوں میں ایک ان دیکھا معاہدہ تھا ، جس کی وجہ سے دونوں ہی پارٹیوں نے کھبی ایک دوسرے کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی، جس نسل کے ہاتھ میں اس دور میں ملک کی بھاگ دوڑ تھی ، عرف عام میں انہیں جیالے اور بریانی خور بھی کہا جاتا ہے۔ 

لیکن وقت تو بدل کر ہی رہتا ہے ، مشرف صاحب کے دور میں ایک غلطی سرزد ہوئی کہ دنیا کا راستہ پاکستان کے لیے کھول دیا گیا، 

بظاہر نیم سرکاری میڈیا کو آزاد میڈیا کہ کر لانچ کیا گیا ، انٹرنیٹ کا آنا گویا مستقبل کی سمت ہی بدل گیا۔ 

اس دور میں  نوجوانی کی طرف بڑھنے والی نسل ہر وقت کی چور چور میں شامل نہ ہوئی ، نت نئے پرا جیکٹ  انصاف کی امیدیں بڑھانے کی کوشش لیکن کوئی خاطر خواہ اثر پذیری نہ ہوئی،یہ نسل اس نظام سے بیزار اور اس سیاست سے متنفر ہوتی گئی۔

عمران خان 1992 کا ورلڈ کپ جیت کر شہرت کی اس بلندی پر پہنچ گیا جسکی صرف حسرت کی جا سکتی ہے، لیکن یہاں  قدرت کا ایک نظام ہے۔

عروج کا عروج چھو کر کے انسان رک نہیں پاتا، کامیابی کی آخری ہد چھوتے ہی انسان یا تو درویشی اور مذہب کی طرف بڑھ جاتا ہے یا گمنامی اور اندھیرے کی طرف اور اتنی ہی تیزی سے بڑھتا ہے جتنی رفتار سے کوئی پتھر لڑھک سکتا ہے ۔ 

اسے being on top کی تھیوری بھی کہا جاسکتا ہے، 

عروج کی بلندی چھو کر جب کوئی جنید جمشید، سعید انور پلٹتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی بھوک کوئی ناکامی انکو ڈرا نہیں سکتی توڑ نہیں سکتی۔۔ 

عمران خان کے ساتھ ایک اضافی عمل انکی والدہ کا کینسر  کی بیماری سے وفات تھی۔

عمران جتنا بھی مشہور اور دولت کما سکتا تھا، لیکن کینسر ہسپتال اس کے بس کی بات نہ تھی سو چندہ مانگنے چل پڑا۔۔۔۔۔ 

صوفی درویش جب کسی کو شاگردی میں لیتے ہیں ، جب کوئی جھوگ لینا چاہے تو سب سے پہلے اس سے بھیک منگواتے ہیں۔ 

سوالی ہوکے کسی کے دروازے پر کھڑا ہونا انسان کی اندر کے تمام بت پاش پاش کر دیتا ہے۔ 

آسان کام نہیں ہے، کسی کی نظر عنایت یا توجہ دیے جانے کا منتظر رہنا۔ 

جن اخبارات رسائل میں عمران خان کی بغیر قمیض کے پلے بوائے کی خبریں لگتی تھی انہی اخبارات میں ملنگ لکھاجانے لگا۔ درویش پکارا جانے لگا۔

عمران خان نے اپنا عروج چھو لیا تھا عروج کی انتہا سے آگے صرف ایک ہی ذات ہے ۔۔۔۔۔

After 1992 Khan remained in the public eye as a philanthropist. He experienced a religious awakening, embracing Sufi mysticism and shedding his earlier playboy image. (Britannica)

اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے عقل ذہانت اور وسائل کی ضرورت نہیں صرف ایک چیز کی ضرورت ہے مستقل مزاجی ۔۔۔۔ 

1996 میں سیاست میں آنے سے لیکر2020 میں وزیر اعظم ہاوس سے نکلنے تک  

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ

اور جب کھانے اور کھلانے کی سیاست عروج پر تھی ، قرض لیکر عیاشی ترقی شمار ہوتی تھی عدل اور انصاف کس کی کس کو ضرورت تھی۔

سو پاکستانی سیاست میں کوئی خاص جگہ نہ بناسکا لیکن  اس کی آواز کی گونج سے ایوانوں کے دروازے ضرور تھرائے، کیونکہ یہ باقیوں کی طرح کھانے والوں کی لائن میں نہ تھا۔

اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچنے کی بات کرنا اسکا جرم تھا۔

 اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔

ایک ناکام سیاست دان کی غیر ملکی بیوی پر مقدمات اور پنجاب کی شان بے ہودہ گندی سیاست.

جمائما خان کا غیر ملکی ہونا اور عمران خان کی بیوی ہونا ہی اس کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا۔۔۔

2008  تک آتے ایک سیٹ کے ساتھ ایوان میں بیٹھے عمران خان کی آواز پہلے سے زیادہ اثر پذیری لانے لگی تھی، ایک سیٹ والے عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے  محمد علی درانی صاحب کو پریس کانفرنسں بھی کرنا پڑتی اور بڑے لوگوں کو ایک سیٹ والا کہ کر موضوع بھی بدلنا پڑتا۔

نئی نسل جس قدر پرانی سیاست سے بیزار تھی اسی قدر عمران خان کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔

2011 کا جلسہ عمران خان کی زندگی کا دوسرا ورلڈ کپ تھا، عمران خان خود اقرار کرتے ہیں اس رات وہ سو نہیں پائے تھے ۔۔

منٹو پارک یا اقبال پارک کو بابے کی کپی کہا جاتا تھا، اس کو بھرنا نا ممکن کی حد تک مشکل ہے چند ایک ہی ایسے سیاست دان ہیں جن کے لیے یہ پارک بھرا ، 2011میں نہ کوئی ایم این اے تھا اور نہ کوئی اے ٹی ایم ۔۔۔

لیکن عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دریائے راوی تک تھا۔۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد رش کی وجہ سے جلسہ گاہ تک پہنچ بھی نہ پائی تھی۔۔۔

شہباز شریف صاحب نے جوابی جلسہ پوری طاقت کے ساتھ بھاٹی چوک میں منعقد کیا جو سرکاری وسائل کے باوجود ایک چھوٹے سے چوک میں بھی وہ سماں نہ باندھ سکا جو میلہ منٹو پارک کی تاریخ ہو گیا تھا۔

پراجیکٹ عمران نیازی یہیں سے شروع ہوا اس سے پہلے کے 15 سال کسی کو نظر نہیں آتے۔

نظام کے اصل مالکوں کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی اور اس نئے گھوڑے پر بازی لگانے کا فیصلہ ہوا۔۔

پیسوں کی آفر  قبول نہ کر کے عمران خان نے اپنی ساکھ مزید  بہتر کی اور ہر طرف سے کندھے فراہم کر دئیے گئے کہ اقتداد کی کرسی کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔ لیکن

عمران خان کو کھبی حکمرانی کے لیے نہیں چنا گیا تھا ،

عمران خان کو صرف اپوزیشن میں ہی سڑکوں پر رہنا تھا ایک میلہ لگا کہ رکھنا تھا جیسا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی والے نورا کشتی دیکھ کر خوش رہے۔ ۔۔۔

تو چور ۔۔۔ تے ۔۔ توں وی چور

چور چور کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جانے تھے۔۔۔

pakistan election voter turnout from 1977 to 2018

اب جبکہ 80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل عددی اکثریت کھو چکی ہے سو جیالوں اور متوالوں کو ملا کر ایک پارٹی بنا دی گئی تاکہ جمہوریت کا حسن برقرار رہے۔

وہ جیالے اور پٹواری جو کل تک ایک دوسرے کے جنازوں میں نہ جاتے تھے مل بیتھ کر کھانے کی برکات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

نواز شریف صاھب کو بادل ناخواستہ ایک مینجڈ طریقہ سے کچھ عرصہ بظاہر کھیل سے باہر کیا گیا لیکن اصل لاڈلا اور نظام کے معیار کے امیدوار وہی رہے، کیونکہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں مسلسل زبیر عمر صاحب کا مڈل مین کا کردار اور کئی مسلم لیگی امیدواروں کے بیانات موجود ہیں کہ چند ماہ بعد ہی حکومت بدلنے کا فیصلہ ہو چکا تھا، لیکن کرونا نے تین سال تک کھینچ لیا۔

عمران خان کے ہوتے ہوئے نواز شریف صاحب کے تمام مقدمات ختم کر دیئے گئے، جو لوگ قانون کی تھوڑی بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں، مقدمہ قایم کر کے معملات کو کیسے اپنی مرضی کی راہ پر ڈالا جاتا ہے۔

اب یہاں وہ کہ جنکی نظر دور تک ہوتی ہے وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جنرل مشرف کو مارشل لا پر خوش آمدید کہنے واالا عمران خان اسی مشرف کے مخالف ایمرجنسی کے نفاذ پر ڈٹ گیا اور الیکشن 2008 کا بائیکاٹ کیا۔

عمران خان جب 2013 کے الیکشن میں اترا تو اپنے ساتھ نئی نسل اور مڈل کلاس کا ووٹ لے کر آیا ۔۔۔

وہ نسل کہ جس سے اس نظام کو خطرہ تھا اسی نظام کا حصہ بن گئی ، وہ نسل کہ جنکے صرف ٹویٹر پر ٹوئیٹ کرنے سے  بڑے بڑے محلات ہوا میں جھول رہے تھے، اسی نظام سے انصاف اور اچھائی کی طالب ہو گئی، اب شائد سمجھنا آسان ہو گا کہ کیوں اس قدر سخت موقف اپنائے آئین قانون عدلیہ پارلیمنٹ ہر ہر انتہا عبور کر لی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی آئین جس کے تقدس کی مقدس لوگ گردان کرتے تھے ردی کی کتاب بن گیا۔

آئین پاکستان 30 لاکھ بنگالیوں کی جان کی قیمت پر بنا تھا، ایک بار بھی نافذ نہ ہو سکا۔

مقصد نئی نسل کو ذہنی طور پر چل رہن دے نظام چلن دے

اور اپنا کم کر مینون کی تے تینوں کی۔۔۔۔۔

والوں کی سطح پر لانا مقصود تھا۔

یہ آج کے دہشت گرد کل کے یوتھیے تھے اور اس سے قبل ففتھیے لیکن شائد یہ کسی کے بیٹے نہیں اور صرف ٹویٹ کرنے پر دہشت گردی کا جرم بھگتی لڑکی کسی کی بیٹی نہیں۔۔۔۔۔۔

یہ نسل تھی حقیقت میں پراجیکٹ عمران نیازی۔۔۔

عمران خان بطور حکمران کھبی تھا ہی نہیں۔

George Orwell "1984"

Power is not a means; it is an end. One does not establish a dictatorship in order to safeguard a revolution; one makes the revolution in order to establish the dictatorship.

Naveed

I am an ordinary man.

Related post