رائیٹ کلک – پرانی کہانی نئے کردار
او یار واقعی کوئی سفید بالوں والا بابا ہی بتا دو رپیٹ ٹیلی کاسٹ ہے پوری کی پوری۔
1965 کے جنگی ایڈونچر کے ختم ہونے کے بعد 1966 میں مجیب کے چھ نکات سامنے اگئے۔ کیا تھے وہ چھ نکات۔۔
1-پاکستان کے عوام ووٹ کی طاقت سے براہ راست فیڈرل حکومت منتخب کریں گے جو قانون سازی کرے گی۔
2-وفاقی حکومت صرف دفاع اور فارن پالیسی چلائے گی۔
3-بنگال کی الگ کرنسی نافذ کی جائے تاکہ سرمائیہ مغربی پاکستان شتر بے مہار ترسیل نہ ہو۔
4-صوبے خود بھی اگر چاہیں ٹیکس لگا سکیں۔
5-صوبے دنیا سے خود اپنے تجارتی معاہدے کر سکیں
6-صوبے خود بھی اپنی دفاعی فورس اور پولیس رکھ سکیں۔
بنگالیوں کو فورسز میں خوش آمدید نہیں کہ اجاتا تھا اور تمام چھوٹے بڑے رینک کی اکثریت مغربی پاکستانیوں پر مشتمل تھی۔
ان نکات میں سے زیادہ تر پورے ہو چکے ہیں اور اس حد تک پورے ہو چکے ہیں کہ اج پاکستان کے ڈیفالٹ کے پیچھے صرف ایک vision less وزیراعلی ہی ہے۔
بار بار روٹی کے بدلے گولی دی گئی، ایک وقت یہ بھی ایا کہ مجیب نے کہا کہ چھ نکات کوئی قران حدیث نہیں جو بدلے نہ جا سکیں لیکن جواب تھا، مجیب کو گرفتار کرو
اور تقریبا سب لوگوں کو پتہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو جان بوجھ کر آگ میں دھکیلا جا رہا تھا تاکہ الگ ہو جائیں۔
حبیب جالب نے 1970 میں ایک سٹیج پر کھڑے ہو کر کہا کہ پولیس والو میرا بیان لکھ لو، کہ جنرل یحیی اور امین الدین پاکستان کو توڑ رہے ہیں ۔ اب چپ رہنا بزدلی اور جیل سے باہر رہنا بے غیرتی ہے۔ اور اپنی گرفتاری دی۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو۔
وطن ک چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے۔
یقین مجھ کو ہے کہ منزل کھو رہے ہو۔
مغربی پاکستان اور خاص کر پنجابیوں نے چل رہن دے تے نظام چلن دے کی پالیسی اپنائے رکھی اور 30 لاکھ لوگ جان سے گئے۔
مغربی پاکستان اور خاص کر پنجابیوں نے چل رہن دے تے نظام چلن دے کی پالیسی اپنائے رکھی اور 30 لاکھ لوگ جان سے گئے۔
مجیب کو جس رات گرفتار کیا گیا اس رات کے بعد مشرقی پاکستان سے لفظ پاکستان مٹ گیا۔ اور مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔
نتیجہ۔۔۔۔۔۔
رائیٹ کلک کر کے 1947 سے لیکر 71 تک کی ساری سیاسی بےغیرتیاں، فوجی اور انتظامی ناکامیاں بنگالیوں کے خون میں چھپ گئی۔
کسی پرانی کتاب میں پڑھا تھا کہ جس دن بنگال کے آزاد ہونے کا اعلان ہو اور مجیب کو پتہ چلا تو جیل میں تڑپا تھاکہ مجھے ریڈیو پاکستان پر لے چلو پاکستان ٹوٹ نہیں سکتا ۔۔۔
مجیب پاکستان بنانے والوں میں سے تھا اور جان گیا تھا کہ پاکستان کو ایسٹ انڈیا کی ذیلی شاخ کے
پاکستان لیمیٹڈ کے چنگل سے چھڑانا باقی ہے ۔
71 کے بعد آج پھر ایک نسل کے غرق ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
آج پھر نظام گندہ بدبودار نظام اسی سطح پر اسی انداز سے پوری رفتار سے پاکستان کو اسی راہ پر لے جارہا ہے۔
عمران خان کا خوب مزاق اڑایا گیا
جب اس نے کہا کہ میں بات کرنے کو تیار ہوں مگر کروں کس سے۔
آخر عمران خان کا قصور کیا ہے؟
وزیر قانون صاحب کہتے ہیں سیاست بچے گی یا عمران خان, اس سطح پر کوئی آئین قانون نہیں دیکھا جاتا۔
تحریک طالبان سے معافی مانگ کر خود واپس لائے سوات سرنڈر ہوا۔
وانا میں ایک کا میجر صاحب کا نام لیکر الزام لگ رہے ہیں کہ ttp کو حوصلہ دیکر مستئد کیا جا رہا ہے۔
مجیب بھی چیختا رہا اجلاس بلاؤ۔۔۔۔
آج تحریک انصاف جو کہ بلا شبہ ملک کی اکثریتی جماعت ہے، ائین و قانون کے مطابق چیف جسٹس بھی مسلسل کہہ رہے ہیں الکشن کروا ۔
ایک سال میں پاکستان کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں ۔
تکلیف کیا ہے عمران خان سے
کوئی نہیں
عمران خان وہ رائیٹ کلک ہے جس کے بعد اتنا خون میسر آ جائے گا کہ انکی ساری سیاسی انتظامی فوجی سماجی ناکامیاں چھپ جائیں گی۔
یوتھیا مار سپرے کا فیصلہ مہینوں قبل کر لیا گیا تھا۔
قاتل اعظم روتے ہوئے دکھ کے ساتھ مقدس ایوان میں نیا آئین مرتب کریں گے نیا قانون بنے گا پھر سے گدھوں کے اس دیس کو میرے بابے کے ملک پاکستان کا نام دے کر،
نئے لاش خور اور مردار خور نئی ٹوپیاں اور واسکٹیں پہن کر سامنے آجائیں گے۔
پوری کی پوری رپیٹ ٹیلی کاسٹ ہے کوئی بابا ہے سفید بالوں والا تو مزید تفصیل کا اضافہ کروا دے۔