سالاراعظم

ایک عظیم سلطنت کی کہانی جو فوجی سالاروں کی وجہ سے تباہ ہوئی۔​

باشاہ صرف فیصلہ سازی کرتا ہے اسکی اصل طاقت اسکے وزرا درباری اور مشیر ہوتے ہیں اور ان فیصلوں 

پر عمل پزیری سالاروں اور خاص کر سالار اعظم کے بادشاہ کے ساتھ ہونے پر ہی ممکن ہے۔ مشیر اور سالار اچھے ہوں تو اکبر کے 9 رتن کہلاتے ہیں اورنہ سراجالدولہ کی طرح بھرے دربار میں بادشاہ تنہا اور لاچار۔

نظام کی اہمیت و ضرورت 

انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے. انسان ہمیشہ گروہوں کی صورت میں رہتے آئے ہیں ،

اورانتظامات کو چلانے  کے لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی نظام موجود رہا ہے۔ 

اگر نظام ریاستی ہو تو اولین ترجیح فرد کی بھلائی، اور اگر شہنشائیت ہو تو فرد واحد کی مرضی مشا، لیکن تاریخ میں ایک چیز سیکھنے کو ملتی ہے کہ فرد واحد کی بقا بھی رعایا کی بھلائی سے جڑی ہے۔ شہنشاہ ہر شے،بحر و بر کی ملکیت کے باوجود رعایا کی فلاح کرتےہیں تو ہی نظام چلتا ہے۔  

نظام میں ہمیشہ ادارے یا افراد کو مخصوص اختیارات اور زمہ داری دی جاتی ہے۔  

اگر  کوئی ایک ادارہ  دیگر معاملات میں بھی مداخلت یا حصہ داری کرے تو نتیجہ تباہی  کی شکل میں نکلتا ہے۔

 سلطنت مغلیہ کا عروج

 ظہیرالدیں بابر نے سلطنت مغلیہ  کی بنیاد رکھی, بابر کا تعلق کیونکہ وسطی ایشیا سے تھا اس لیے اس نے اسی طور پر سلطنت کی داغ بیل ڈالی، لیکن اسکا بنایا ماڈل ہمایوں کی شکست کے ساتھ ہی ڈھے گیا، شیر شاہ سوری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو انقلابی کام کیے وی بابر کی مغل سلطنت کی کمزوریوں کو دکھاتے ہیں،

عظیم الشان سلطنت مغلیہ جس نے اشوک کے بعد ہندوستان کو ایک تاج کے نیچے اکھٹا کیا اس کی بنیاد اکبر ے رکھی تھی، ایک اچھے منظم کی طرح زمینی حقائق کے مطابق ہر تبدیلیاں کرتا گیا، اور مذہب تک کا فرق مٹا کر متحد کرنے کی کوشش کی۔ 

مضلیہ سلطنت کا عروج اورنگزیب کے دور میں اپنی آخری حدوں کو چھو گیا اور وہیں سے زوال کا آغاز ہوا۔ 

اورنگزیب عالمگیر اور عوج سلطنت مغلیہ 

اورنگزیب نے کم و بیش صف صدی تک حکومت کی، شنہشاہ بننے کےلیے اورنگزیب کو حسب روایت اپنے والد کے کمزور پڑتے ہی مقابلہ کرنا پڑا۔ شاہجہاں نے اپنے چاروں بیٹوں کی خوب تربیت کی تھی۔ لیکن مقابلہ صرف شہزادوں میں ہی نہیں سالاروں اور درباری وزرا میں ھی تھا، دو شہزادے ہی مد مقابل رہے، دارا شکوہ اور اورنگزیب۔ دارا شکوہ اچھا وامل تھا، اچھا راہما معتدل آدمی رم دل لیکن ایک اچھا سالار نہ تھا۔ ابتدائی چھوٹی کامیابیوں کو فتح سمجھ بیتھا، لیکن اورنگزیب کے حملہ کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ زنجیروں میں جھکڑ کر دارلحکومت لایا گیا، اور پھر پھانسی چھڑھا دیا گیا۔ اورنگزیب کی شخصیت میں یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے، ٹوپیاں سینے والے شہنشاہ نے تخت کے راستہ میں آنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کر کے مختلف جرائم کے الزام میں مغل روایات کے برعکس قاضی کے حکم  کے بغیر سزا دی۔  اپنے پیش رووں کے برعکس اورنگزیب نے فضول خرچی نہیں کی اور ہمیشہ حالت جنگ میں رہا۔  

ملک کے اندر سے خانہ جنگی کم ہوئی تو اس نے تمام محاظ کھول دئیے ہر باڈر پر اسکی فوجیں سلطنت کو وسعت دینے میں لگی رہیں۔ 

اس کے دوع میں مغل سلنطنت نے اپنا عروج چھو لیا۔ دکن کے محاذ نے قورنگزیب کو زچ کیے رکھا ۔ 21 سال کی کوشش کے بعد دکن فتح ہوا۔ ہر سال قریبا ایک لاکھ لوگ جقن سے جاتے اور روپیہ کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ 

 

 مغل افواج کی ترتیب

مغل ریگولر فوج نہیں رکھتے تھے، تمام عہدہ داروں کو انکے گھوڑوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے نچلا 10 گھڑ سوار سے 25000  ہزاری شہزادوں تک منصب دئیے جاتے تھے، منصبدار صوبہ دار  جیسے عہدہ دار اپنے عہدہ اپنے عہدہ کے مطابق اپنے سوار رکھنے کے پابند تھے ۔ ہر سوار دو گھوڑے لازم رکھتا تھا۔
مغلوں کی پیدل سپاہ کی نسبت انکو رقم بھی اچھی ملتی تھی اور یہ نظم میں بھی بہترین تھے۔ پورے ہندوستان میں مغلوں کی سوار فوج کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ان افواج کو تنخواہ دینے کے لیے جاگیریں عطا کی جاتی ،یاکوئی دیگر عہدہ صوبیداری وغیرہ ۔۔
بادشاہ اپنے پاس چند ہزار فوج ہی رکھتا تھا۔ فوج کے علاوہ بدشاہ اپنے پاس ذاتی محافظوں ک دستہ جو اب سے اعلی اور وفادار سپاہیوں پر مشتمل تھے وہ بھی رکھتا تھا۔

اورنگزیب  کے بعد حکومت بہادر شاہ کے حصے میں آئی،جس نے نے راجپوتوں، مراٹھوں اورسکھوں سے صلح کر لی اورجاٹوں کی بغاوت کا  قلع قمع کردیا۔

یعنی یہ وہ دور تھا جن راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ 

 سالاروں کو جب جنگوں سے فرصت ملی تو بجائے اس کے کہ اپنی افواج کی تربیت ،

نئے ظریقوں اور نئی ایجادات کی طرف توجہ دیتے سیاست کو اپنا نیا میدان بنا لیا ۔

امں کے قیام میں سادات بارہ  کا بہت بڑا ہاتھ تھا، جن میں سادات برادان  دو سید بھائی تھے

 ارو مغل سکطنت کے سالار تھے ،انتھائی قابل ،دلیر ارو فیم رکھتے تھے ۔انکی طاقت اس 

قدر بڑھی کہ ایک وقت میں اصل بادشاہ یہی تھے ۔

سید براد ران کی اصل بادشاہ گری صاف بادشاہوں کے عرصہ سے عیاں ہے

اعظم شاہ

عرصہ3 ماہ

بہادر شاہ

عرصہ4 سال 9 ماہ

جہاندار شاہ

عرصہ 1سال

فرخ سیر

عرصہ 6سال 1ماہ.

رفیع الدرجات

عرصہ3 ماہ

شاہ جہان دوئم

عرصہ 3 ماہ

syed-aliwith-king-faakh-sair

سید علی

سید علی کی بادشاہ فرخ سیر کے ساتھ یاک پینٹنگ

 تخت کے خواہشمند تمام شہزادے  اکثر رات کے اندھیروں میں سادات برادران کے محلات کو جانے والے راستوں پر پائے جاتے ،ہر شہزادے کی کوشش ہوتی  کہ سادات برادران کی خوشنودی  حاصل کریں .

جو بھی بادشاہ تخت نشین ہوا سادات برادران کے سامنے سر جھکانے پر مجبور رہا ۔ گر کسی نے سر اٹھانے یا اپنی مرضی کرنے کی کوشش  کی تو اس کوتخت کے  ساتھ  اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے

syed-abdullah-general-of-mughal-empire

سید عبداللہ خان

سید عبداللہ اپنی محفل میں

اورنگزیب کے دور کے پرانے اور تجربہ کار امرا میں سے جس نے بھی مخالفت کرنے کی کوشش کی اوکو دربار سے دور بجوادیا گیا ۔

اور دربارویوں میں طاقت کا توازن ایسا بگڑا کہ پھر سنبھل نہ پایا ۔سکہ بادشاہ کے نام کا اور

حکم انکا چلتا تھا،تمام تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں ۔

اور ہر اہل افراد  کی جگہ من پسند افراد نے لے لی ۔

قابل دیوان مغل سلطنت کو عظیم بنا گئے

 مغل سلطنت کو ایک کے بعد ایک انتہائی محنتی اور قابل سربر میسر رہے ،

 مغل اہل ترین افرد کو نوازتے اور سلطنت کا نظام منظم کرتے چلے گئے ،

 جنگیں ہوں ،بغاوتیں آ پسی لڑایاں اس نظام نے سلطنت کو گرنے نہیں دیا ،اور خود کار طریقہ کار سے بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہا ۔۔۔۔۔

مغل سلظنت کا دیوانی نظام کیسے تباہ ہوا؟

شاہجہان کے دور میں برصغیر دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد کا حامل ملک تھا ۔ 

پوری دنیا میں یہ خطہ اپنی مثال آ پ تھا ۔ لیکن سالاروں کی اتنی بڑھتی دخل اندازی اور

  سلطنت کے باقی تمام اداروں میں اپنے من بھاتے افراد لگا کر سلطنت کی تباہی یقینی بنا دی گئی۔مزید آپسی مخالفتیں کسی بھی دیوان کو زیادہ دیر ٹکنے نہ دیتی اس لیے ایک اکبر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچنے والا نظام زمیں بوس ہو گیا۔

فوجی سالار ہی وہ  دیمک تھے جو سلطنت کی بنیاد کھا گئے 

 یہ وہی دور تھا جب انگریز اور دوسری قومیں برصغیر میں طاقت پکڑ رہی تھیں ,

انہی کے ہوتے انگریزوں کو بغیر ٹیکس سامان بنگال میں لانے کی اجزت دے کر سلطنت کو گہرا چھرا گونپا گیا ۔۔۔

محمد شاہ رنگیلا وہ آخری مغل حکمران تھا جس نے باقی بچ جانے والی مغل سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کی مسلسل ہونے والی بغاوتوں سازشوں  اور نادر شاہ کے حملوں کے باوجود کسی حد تک اس سلطنت کو چلنے کے  قابل کیا محمد شاہ کے دور میں ان دونوں بھائیوں سے چھٹکار احاصل کیا گیا ۔ 

لیکن جو دروازے  یہ دونوں بھائی شاہی دربار میں کھول گئے انہی نے ریاست کو ڈبو دیا۔

 ، مسلسل جنگیں ، بغاوتیں آپسی لڑائیاں وہ نہ کر پائی جو انہوں نے کیا ۔

کوئی ریاست کتنی بھی طاقتور ہو بنیاد کو لگنے والے دیمک آخر تاریخ کا  حصہ بنا ہی دیتےہیں

سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کیوں انہوں نے ایسا کیا؟

جانتے بھوجتے انکے سامنے مغلیہ سلطنت کو زوال شروع ہوا ۔۔۔

مجھے لگتا ہے شائد یہ بھی اسی بشری کمزوری اور اس چوتھے عنصر کا شکار ہو گئے ہوں گے جن سے خال ہی کوئی بچ پایا ہے ۔

مشترک موضوعات

pakistan
اردو

جشن آزادی مبارک

نیا اضافہ <!-- Section title --> <a href="https://fruit-chat.com/urdu/riyasat-madina-artial-six/" rel="bookmark" title="ریاست

Read More
اردو

نئی نسل کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

دنیا کے کامیاب افراد میں پائی جانے والی دس مشترک

Read More
who is responsible of destroying generations
اردو

کل کے ڈاکو آج کے لیڈر

تاریخی واقعات کو کس طرح ذہین سازی کے لہے استعمال

Read More
survival of pakistan
fruit chat special
اردو

پاکوزہ

دنیا میں نظام حکومت چلانے کے کئی طریقے موجود ہیں

Read More

Naveed

I am an ordinary man.

Related post