سالاراعظم
- تاریخ کا سق
Naveed
- 1327
نیا اضافہ
مزید پڑھیں
باشاہ صرف فیصلہ سازی کرتا ہے اسکی اصل طاقت اسکے وزرا درباری اور مشیر ہوتے ہیں اور ان فیصلوں
پر عمل پزیری سالاروں اور خاص کر سالار اعظم کے بادشاہ کے ساتھ ہونے پر ہی ممکن ہے۔ مشیر اور سالار اچھے ہوں تو اکبر کے 9 رتن کہلاتے ہیں اورنہ سراجالدولہ کی طرح بھرے دربار میں بادشاہ تنہا اور لاچار۔
نظام کی اہمیت و ضرورت
انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے. انسان ہمیشہ گروہوں کی صورت میں رہتے آئے ہیں ،
اورانتظامات کو چلانے کے لیے ہر دور میں کوئی نہ کوئی نظام موجود رہا ہے۔
اگر نظام ریاستی ہو تو اولین ترجیح فرد کی بھلائی، اور اگر شہنشائیت ہو تو فرد واحد کی مرضی مشا، لیکن تاریخ میں ایک چیز سیکھنے کو ملتی ہے کہ فرد واحد کی بقا بھی رعایا کی بھلائی سے جڑی ہے۔ شہنشاہ ہر شے،بحر و بر کی ملکیت کے باوجود رعایا کی فلاح کرتےہیں تو ہی نظام چلتا ہے۔
نظام میں ہمیشہ ادارے یا افراد کو مخصوص اختیارات اور زمہ داری دی جاتی ہے۔
اگر کوئی ایک ادارہ دیگر معاملات میں بھی مداخلت یا حصہ داری کرے تو نتیجہ تباہی کی شکل میں نکلتا ہے۔
سلطنت مغلیہ کا عروج
ظہیرالدیں بابر نے سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی, بابر کا تعلق کیونکہ وسطی ایشیا سے تھا اس لیے اس نے اسی طور پر سلطنت کی داغ بیل ڈالی، لیکن اسکا بنایا ماڈل ہمایوں کی شکست کے ساتھ ہی ڈھے گیا، شیر شاہ سوری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جو انقلابی کام کیے وی بابر کی مغل سلطنت کی کمزوریوں کو دکھاتے ہیں،
عظیم الشان سلطنت مغلیہ جس نے اشوک کے بعد ہندوستان کو ایک تاج کے نیچے اکھٹا کیا اس کی بنیاد اکبر ے رکھی تھی، ایک اچھے منظم کی طرح زمینی حقائق کے مطابق ہر تبدیلیاں کرتا گیا، اور مذہب تک کا فرق مٹا کر متحد کرنے کی کوشش کی۔
مضلیہ سلطنت کا عروج اورنگزیب کے دور میں اپنی آخری حدوں کو چھو گیا اور وہیں سے زوال کا آغاز ہوا۔
اورنگزیب عالمگیر اور عوج سلطنت مغلیہ
اورنگزیب نے کم و بیش صف صدی تک حکومت کی، شنہشاہ بننے کےلیے اورنگزیب کو حسب روایت اپنے والد کے کمزور پڑتے ہی مقابلہ کرنا پڑا۔ شاہجہاں نے اپنے چاروں بیٹوں کی خوب تربیت کی تھی۔ لیکن مقابلہ صرف شہزادوں میں ہی نہیں سالاروں اور درباری وزرا میں ھی تھا، دو شہزادے ہی مد مقابل رہے، دارا شکوہ اور اورنگزیب۔ دارا شکوہ اچھا وامل تھا، اچھا راہما معتدل آدمی رم دل لیکن ایک اچھا سالار نہ تھا۔ ابتدائی چھوٹی کامیابیوں کو فتح سمجھ بیتھا، لیکن اورنگزیب کے حملہ کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ زنجیروں میں جھکڑ کر دارلحکومت لایا گیا، اور پھر پھانسی چھڑھا دیا گیا۔ اورنگزیب کی شخصیت میں یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے، ٹوپیاں سینے والے شہنشاہ نے تخت کے راستہ میں آنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کر کے مختلف جرائم کے الزام میں مغل روایات کے برعکس قاضی کے حکم کے بغیر سزا دی۔ اپنے پیش رووں کے برعکس اورنگزیب نے فضول خرچی نہیں کی اور ہمیشہ حالت جنگ میں رہا۔
ملک کے اندر سے خانہ جنگی کم ہوئی تو اس نے تمام محاظ کھول دئیے ہر باڈر پر اسکی فوجیں سلطنت کو وسعت دینے میں لگی رہیں۔
اس کے دوع میں مغل سلنطنت نے اپنا عروج چھو لیا۔ دکن کے محاذ نے قورنگزیب کو زچ کیے رکھا ۔ 21 سال کی کوشش کے بعد دکن فتح ہوا۔ ہر سال قریبا ایک لاکھ لوگ جقن سے جاتے اور روپیہ کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
مغل افواج کی ترتیب
مغل ریگولر فوج نہیں رکھتے تھے، تمام عہدہ داروں کو انکے گھوڑوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے نچلا 10 گھڑ سوار سے 25000 ہزاری شہزادوں تک منصب دئیے جاتے تھے، منصبدار صوبہ دار جیسے عہدہ دار اپنے عہدہ اپنے عہدہ کے مطابق اپنے سوار رکھنے کے پابند تھے ۔ ہر سوار دو گھوڑے لازم رکھتا تھا۔
مغلوں کی پیدل سپاہ کی نسبت انکو رقم بھی اچھی ملتی تھی اور یہ نظم میں بھی بہترین تھے۔ پورے ہندوستان میں مغلوں کی سوار فوج کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ان افواج کو تنخواہ دینے کے لیے جاگیریں عطا کی جاتی ،یاکوئی دیگر عہدہ صوبیداری وغیرہ ۔۔
بادشاہ اپنے پاس چند ہزار فوج ہی رکھتا تھا۔ فوج کے علاوہ بدشاہ اپنے پاس ذاتی محافظوں ک دستہ جو اب سے اعلی اور وفادار سپاہیوں پر مشتمل تھے وہ بھی رکھتا تھا۔
اورنگزیب کے بعد حکومت بہادر شاہ کے حصے میں آئی،جس نے نے راجپوتوں، مراٹھوں اورسکھوں سے صلح کر لی اورجاٹوں کی بغاوت کا قلع قمع کردیا۔
یعنی یہ وہ دور تھا جن راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
سالاروں کو جب جنگوں سے فرصت ملی تو بجائے اس کے کہ اپنی افواج کی تربیت ،
نئے ظریقوں اور نئی ایجادات کی طرف توجہ دیتے سیاست کو اپنا نیا میدان بنا لیا ۔
امں کے قیام میں سادات بارہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، جن میں سادات برادان دو سید بھائی تھے
ارو مغل سکطنت کے سالار تھے ،انتھائی قابل ،دلیر ارو فیم رکھتے تھے ۔انکی طاقت اس
قدر بڑھی کہ ایک وقت میں اصل بادشاہ یہی تھے ۔
سید براد ران کی اصل بادشاہ گری صاف بادشاہوں کے عرصہ سے عیاں ہے
اعظم شاہ
عرصہ3 ماہ
بہادر شاہ
عرصہ4 سال 9 ماہ
عرصہ 1سال
فرخ سیر
عرصہ 6سال 1ماہ.
عرصہ3 ماہ
شاہ جہان دوئم
عرصہ 3 ماہ
عرصہ 29 سال

سید علی
سید علی کی بادشاہ فرخ سیر کے ساتھ یاک پینٹنگ
تخت کے خواہشمند تمام شہزادے اکثر رات کے اندھیروں میں سادات برادران کے محلات کو جانے والے راستوں پر پائے جاتے ،ہر شہزادے کی کوشش ہوتی کہ سادات برادران کی خوشنودی حاصل کریں .
جو بھی بادشاہ تخت نشین ہوا سادات برادران کے سامنے سر جھکانے پر مجبور رہا ۔ گر کسی نے سر اٹھانے یا اپنی مرضی کرنے کی کوشش کی تو اس کوتخت کے ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے

سید عبداللہ خان
سید عبداللہ اپنی محفل میں
اورنگزیب کے دور کے پرانے اور تجربہ کار امرا میں سے جس نے بھی مخالفت کرنے کی کوشش کی اوکو دربار سے دور بجوادیا گیا ۔
اور دربارویوں میں طاقت کا توازن ایسا بگڑا کہ پھر سنبھل نہ پایا ۔سکہ بادشاہ کے نام کا اور
حکم انکا چلتا تھا،تمام تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں ۔
اور ہر اہل افراد کی جگہ من پسند افراد نے لے لی ۔
قابل دیوان مغل سلطنت کو عظیم بنا گئے
مغل سلطنت کو ایک کے بعد ایک انتہائی محنتی اور قابل سربر میسر رہے ،
مغل اہل ترین افرد کو نوازتے اور سلطنت کا نظام منظم کرتے چلے گئے ،
جنگیں ہوں ،بغاوتیں آ پسی لڑایاں اس نظام نے سلطنت کو گرنے نہیں دیا ،اور خود کار طریقہ کار سے بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہا ۔۔۔۔۔
مغل سلظنت کا دیوانی نظام کیسے تباہ ہوا؟
شاہجہان کے دور میں برصغیر دنیا کی کل پیداوار کا 25 فیصد کا حامل ملک تھا ۔
پوری دنیا میں یہ خطہ اپنی مثال آ پ تھا ۔ لیکن سالاروں کی اتنی بڑھتی دخل اندازی اور
سلطنت کے باقی تمام اداروں میں اپنے من بھاتے افراد لگا کر سلطنت کی تباہی یقینی بنا دی گئی۔مزید آپسی مخالفتیں کسی بھی دیوان کو زیادہ دیر ٹکنے نہ دیتی اس لیے ایک اکبر کے دور میں اپنے عروج کو پہنچنے والا نظام زمیں بوس ہو گیا۔
فوجی سالار ہی وہ دیمک تھے جو سلطنت کی بنیاد کھا گئے
یہ وہی دور تھا جب انگریز اور دوسری قومیں برصغیر میں طاقت پکڑ رہی تھیں ,
انہی کے ہوتے انگریزوں کو بغیر ٹیکس سامان بنگال میں لانے کی اجزت دے کر سلطنت کو گہرا چھرا گونپا گیا ۔۔۔
محمد شاہ رنگیلا وہ آخری مغل حکمران تھا جس نے باقی بچ جانے والی مغل سلطنت پر اپنی گرفت مضبوط کی مسلسل ہونے والی بغاوتوں سازشوں اور نادر شاہ کے حملوں کے باوجود کسی حد تک اس سلطنت کو چلنے کے قابل کیا محمد شاہ کے دور میں ان دونوں بھائیوں سے چھٹکار احاصل کیا گیا ۔
لیکن جو دروازے یہ دونوں بھائی شاہی دربار میں کھول گئے انہی نے ریاست کو ڈبو دیا۔
، مسلسل جنگیں ، بغاوتیں آپسی لڑائیاں وہ نہ کر پائی جو انہوں نے کیا ۔
کوئی ریاست کتنی بھی طاقتور ہو بنیاد کو لگنے والے دیمک آخر تاریخ کا حصہ بنا ہی دیتےہیں
سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کیوں انہوں نے ایسا کیا؟
جانتے بھوجتے انکے سامنے مغلیہ سلطنت کو زوال شروع ہوا ۔۔۔
مجھے لگتا ہے شائد یہ بھی اسی بشری کمزوری اور اس چوتھے عنصر کا شکار ہو گئے ہوں گے جن سے خال ہی کوئی بچ پایا ہے ۔
جشن آزادی مبارک
نیا اضافہ <!-- Section title --> <a href="https://fruit-chat.com/urdu/riyasat-madina-artial-six/" rel="bookmark" title="ریاست
Read Moreنئی نسل کی تباہی کا ذمہ دار کون؟
دنیا کے کامیاب افراد میں پائی جانے والی دس مشترک
Read More