کامیابی کا راز

 کامیابی ہر کسی کی خواہش اور اسی کے لیے ہم کوشش کرتے یں لیکن کامیابی کسی کسی کامقدر آخر “کامیابی کا راز ” کیا ہے؟

ہرانسان اپنی کامیابی خود  مقرر کرتا ہے، کسی کے لیے کامیابی دولت ہے تو کسی کے لیے ناموری،سادہ سے چند اصول دنیا کے ایک امیر ترین فرد کی زندگی سے، جنہیں ہر کوئی اپنا سکتا ہے  ۔۔

وارن بفٹ کی کامیابی کے اصول

وارن بفیٹ کا شمار دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی سرمایہ کاری کی حکمت عملی اور انسان دوستی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انکی مجموعی مالیت کا تخمینہ $97.5 بلین ہے۔

وہ اوماہا، نیبراسکا میں واقع ایک ہولڈنگ کمپنی کے بانی ہیں۔  متعدد کاروباروں کےمالک ہیں۔ معیشت اور بازاروں کے مستقبل کی پیشین گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 ناشتہ کی میز پر جس کمپنی کے بارے میں بات کر لیں تو لنچ تک کمپنی کے شیئر ڈبل پرائس پر بکتے ہیں ۔۔۔

 وارن بفٹ نے گیونگ وپلیج نامی  مہم چلائی، جو کہ امیر افراد کو اپنی دولت  کا کم از کم نصف خیراتی کاموں میں عطیہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ 

وہ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین بھی ہیں۔

دنیاکےبا اثر تریں افراد میں وارن بفٹ نام عرصہ دراز سے موجود ہے لیکن زیادہ

چکا چوند سے گریزاں اور درویشی کی زنگی گزارتے ہیں۔

وارن بفٹ کی زندگی کا مختصر جائزہ

وارن کی کامیابیوں پرکئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں،اس لیے چند نکات مختصرا۔۔۔۔۔۔

1-وارن بفٹ نے زندگی میں پہلی انوسٹمنٹ اس عمر میں کی جس عمر میں ہمارے ہاں بچہ مارکیٹ تک اکیلا بھیجنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

 2-  وارن بفٹ نے بچت کرکے  شیئر مارکیٹ میں انوسٹمنٹ اور پنسلیں تراشنے والی مشین لگانے  سے کاروبار کا آغا۔ کیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ۔۔۔۔۔

2 – چودہ سال کی عمر تک وارن 40 ایکڑ زمیں کا مالک اور اپنے والد کے کاروبار میں انوسٹمنٹ کر چکا تھا ۔ 

3-انہیں  بیسویں صدی کا سب سے بڑا مالیاتی اثر پذیر شخص ہونے کا اعزاز حاصل ہے ،   

4-وارن کبھی چکا چوند کے پیچھے نہیں بھاگا 

5-اسی گھر میں رہتا ہے جو اس نے اوائل جوانی میں خریدا تھا۔ 

6- سادہ زندگی اور نام کے ساتھ فلاسفر کا ٹیگ 

7-بل اینڈ مالینڈا فاؤنڈیشن کو اپنی 99 فیصد دولت دینے کا اعلان کیا ۔۔۔۔

8-دولت مرتکز رکھنے کے قائل نہیں ۔

وارن بفٹ کی کامیابی کا پہلا سبق۔۔

 وارن اس تھیوری کی جیتئ جاگتی مثال ہے کہ دولت آپکو کسی غیر یقینی صورت حال میں  تنگی کی بابت اطمینان تو دیتی ہے لیکن خوشی روزانہ ٹارگٹ اچیو کرنے میں ہے۔ 

اس قدر دولت کے باوجود روز  دفتر جاتےہیں ، لیکچر دیتے ہیں کتابیں لکھتے ہیں، پڑھتے ہیں ۔ 

ہر روز نئی انوسٹمنٹ کرتے ہیں ، دولت کی فراوانی نے انکو بے کاری کی عادت نہیں ڈالی۔

وارن بفٹ کی کامیابی کا دوسرا سبق۔۔

وارن نے پہلی انوسٹمنٹ سے بچت کر کے شیئر خریدے تھے اپنے لئے اور اپنی بہن کے لئے  ۔

انوسٹمنٹ /سرمایہ کاری نے ہی وارن کو آج اس مقام تک پہنچایا ہے ۔

عام سوچ کے برعکس بجائے اس کے کہ رقم جوڑتے رہتے اور بڑی رقم کا انتظار کرتے ،تھوڑی رقم سے ہی دوسروں کو ساتھ ملا کر کاروبار شروع کر دیا۔انوسٹمنٹ اور ایک وقت میں نمختلف جگہ انوسٹمنٹ تاکہ ایک جگہ نقصان ہو تو انسان دوسری جگہ سے منافع کما سکے دوسرا راز ہے۔

وارن بفٹ کی کامیابی کا تیسرا سبق۔

کام میں یہ کیا کہ کم عمری سے ہی اپنے ساتھ لوگوں کو جوڑ لیا ۔

پہلا شیئر خریدا تو بہن کے ساتھ اگر پنسل تراش  مشین لی تو اس میں بھی شراکت دار

تمام کام جو اپنے کیے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر 

ہولڈنگ فرم قائم کی اس میں  بھی شراکت داریاں ہیں

 زندگی میں ایک وقت وہ بھی آیا ایک ڈاکٹر کو آمادہ کیا کی دس ڈاکٹر ساتھیوں کو آمادہ کرے کہ 100 ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ کرے اور خود بھی اس میں سو ڈالر ملا کر  گیارہ سو ڈالر کی سرمایہ کاری  کی ۔

 آج کا سب سے بڑا سچ بھی یہی ہے اکیلا شخص جس قدر بھی ذہین ہو ٹیلنٹ  ہو ایک حد سے زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔

یہ دور ملٹی نیشنل اور برینڈنگ کا ہے لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کا  ہے ۔

اگر کوئی شخص اکیلا ہوں تو کوکا کولا بھی کوڑیوں کے بھاؤ بکتا ہے اور

اگر ساتھ ساتھ لوگ کھڑے ہو ہیں گوگل جیسا ایک تجرباتی پراجیکٹ دنیا بدل دیتا ہے ۔

یہی رزق کا راز ہے

ایک بچے کو وارن بفٹ بنایا کس نے؟

انگریزوں نے یہ بات دوسو سال پہلے سمجھ لی تھی ، کہ مالیاتی تحفظ کے بغیر ترقی ممکن نہیں ۔

فنانشل کرائم پر انتہائی سخت قوانین بنائے اور نافذ کئے ، 

جو فراڈ اور دو نمبری ہماری زنگی کا حصہ بن گئے ہیں انہوں سرے سے مٹا دئیے ہیں۔

 سینکڑوں سال کی  سزاسنا  ڈالتے ہیں (فردا فردا ہر جرم کی )

نریندر مودی کی کامیابی

فنانشل کرائم ثابت کرنا زیادہ آسان کام ہے ، ڈیجیٹل کرنسی  اور آن لائن ٹرانزیکشن نے تفتیش ورچیول اور مختصر کردی ہے ۔۔۔۔۔

ہمارے ہمسائیہ ملک میں جسکو چائے والا بولتے رہے ، اس نے نئے انڈیا کی بنیاد رکھ دی ہے ۔

بڑے نوٹ بند کر کے  لوگو ں کوبننکنگ چینل کی طرف راغب کیا ، انٹیشنل کمیونٹی کے خدشات دور کیے ،

 چوری اور خاص کر سافٹ وئیر چوری کم کی ،دنیا کا اعتماد جیتنے میں e banking نے نہت اہم کردار ادا کیا ۔

 جو ویژن اس چائے والے کا ہے ،افسوس ہمارے کیمرج کے پاس نہیں ۔

کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟

جس ملک کی ایک بھی فیکٹری انٹرنیشل برینڈ نہ ہو ، مکمل دآرومدار امداد ،خیرات اور بھیک ہو ، کون سے سٹاک میں کاروبار کرتی ہے ۔۔۔

کیا آئے روز ہماری سٹاک مارکیٹ میں فراڈ نہیں ہوتے، نئے آنے والے ہوائی سٹاک خرید کر ڈوب نہیں جاتے ۔

اور اگر کوئی فراڈ کرے تو کیا سٹیٹ میں اتنی طاقت ہے کہ سزا دے سکے ۔۔۔۔۔۔۔

کم و بیش جتنی بھی نئی کمپنیاں ڈوبی ہیں , چند مخصوص لوگوں کا نام ہی ہے ان کی قبروں کے کتبے پر ۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نظام انصاف صرف اور صرف طاقتور کو تحفظ دیتا ہے اور پوری چھوٹ دیتا ہے ہر قسم کے جرائم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کسی  بنکنگ کورٹ ، یاایف آئی اےکورٹ جائیں اندازہ تاکہ اندازہ  ہو کس حد تک لاچارہو چکا ہے یہ نظام عدل ۔۔۔۔

نیب جیسا طاقتور ترین ادارہ پلی بارگین کے نام پر ڈیل کر کے ریکوری کرتا رہا ۔۔۔

کبھی چھین کر کچل کر نیلام کرنے میں ناکام رہا ۔۔۔۔۔

رسہ گیر

سٹیٹ کھڑی تھی اس بچے کی بچت کے چند شئیرز کی حفاظت کے لئے، قانون موجود تھا۔

سٹیٹ تھی محافظ ہر اس پنسل تراش مشین کی جسکو بازار میں لگا کر چھوڑ آیا اتھا ۔

 ایک اسٹامپ پیپر تک نہ جھوٹا نکلا ، نہ فردوں ، گرداوریوں کے پیچھے تصدیق کے لئے مارا مارا پھرنا پڑا۔

جب کمپنی کھولی تو خود اس کی جرات نہ ہوئی فراڈ کی ، یا کسی کا  حق مارنے کی ۔

سسٹم نے بننے دیا اسکو اور اس جیسے کئی لوگوں کو،جس قابل وہ ہیں۔

ایک بات اور یاد رکھیں ، ہمارا دشمن یہ سسٹم  ہے اور یہ سسٹم انگریز نے نہیں ہم نے خود بنایا ۔

پنجاب میں چھوٹے بڑے زمینداروں نے کبھی ڈاکو چور اور اشتہاری رکھے ہوتے تھے اپنے کام نکلوانے 

اور رعب پیدا کرنے کے لیے ، انک پیروی کرتے تھے ، سنبھالتے تھے ، پالتے تھے ۔۔۔۔۔

       انکو رسہ گیر   کہا جاتا تھا ۔ 

آج عدالتیں بے بس ہیں ، قاضی  فیصلہ کرنے کی جسارت نہیں رکھتے ،

 اور اگر کوئی غلطی سے پکڑ میں آجائے تو ریاست اس کے بچاو میں پورے زور سے سامنے اتی ہے ۔۔    

شائد ارض پاک، مملکت خداد پاکستان پوری دنیا میں واحد ریاست ہو گی,

 جو اپنے باشندوں کو لوٹنے والے لٹیروں کی رسہ گیروں کی طرح حفاظت کرتی ہے۔ ۔۔۔۔

                                                                                          مزید پڑھیں

Naveed

I am an ordinary man.

Related post