پاکستان کی بقا کی جنگ۔۔
پاکستان کی بقا یں سب کی بقا ہے ،پاکستان ہمارا گھر ہے اور گھر سے آگے کہاں جائیں گے۔
ایک عرب کہاوت ہے، کہ ایک عرب قبیلہ کے ایک بزرگ کی مرغی چوری ہو گئی۔ اس نے قبیلہ کی دعوت کی اور اونٹ ذبح کر کے کھلایا اور کہا مرغی چور کو ڈھونڈو۔ قبیلہ والوں نے اونٹ کھایا احترام میں چپ رہے اور چلے گئے ۔
کچھ دن بعد ایک شخص کی بکری چوری ہو گئی، بزرگ نے پھر اونٹ ذبح کیا اور کہا مرغی چور کو ڈھونڈو۔اس دفعہ جند لوگوں نے دبے دبے الفاظ میں سمجھایا کہ دواونٹ ذبحہ کر کے مرغی ڈھونڈنے کا کہنا بے وقوفی ہے۔
کچھ دن بعد گائے چوری ہو گئی اس نے پھر اونٹ ذبح کیا اور سب کو کھلا جہ کہا مرغی چور ڈھونڈ لو ، اس مرتبہ کچھ لوگوں نے بے عزتی کی بابا تماشا بنایا ہوا ہے ۔
کچھ دن گزرے قبیلہ کی ایک لڑکی فرار ہو گئی قبیلہ والوں کی انا کا مسئلہ بن گیا، بھاگے دوڑے زمین اسمان ایک کر دیا قریبی پہاڑ میں ایک غار سے لڑکی اور اس کے عاشق کو ڈھونڈ لیا قریب اگ کے گرد مرغی کے پر بکری کی کھال اور گائے کے سینگ پٹے تھے۔
تب انکو یاد ایا وہ بوڑھا کہتا رہا کہ مرغی چور ڈھونڈلو ۔
اگر پہلی غیر معمولی نظر آنے والی چیز کو نظر انداز نہ کی جائے توبڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی تیسری جنگی شکست
پاکستان نے اپنی تیسری جنگ جیتن کر 80000 شہید کروانے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر شرمناک طریقہ سے ہار دی ۔ اس ہار کا ہمیں احساس تک نہیں ہوا کیونکہ اس وقت ہم اڈیو ویڈیو میں مشغول تھے اور ہم ہارنا بھی نہیں جانتے، ہمارے ہاں جانے والوں کو ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کرنے کا رواج ہے ۔
جانے والا 30لاکھ لوگ ہی کی کیوں نہ قتل کروا دے۔
دلچسپ مضمون پڑھیں: یوتھیا قوم کے ہیرو
جنگ کو جنگ کی طرح دیکھیں تو میانوالی باڈر سے دور ہے درمیان میں پورا ایک صوبہ ہے۔ دن دیہاڑے حملہ اوروں کا پاکستان کے وسط تک آجانا اگر اپکو حالات کی سنگینی کا اندازہ
نہیں کرواسکتا تو میانوالی سے لاہور اور میانوالی سے افغانستان کا فاصلہ تقریبا برارا ہے۔
نئی جنگ نئے انداز
پچھلی جنگ میں حملہ اور چھپ کے بیس بدل کر خودکش بن کر اتے تھے۔ اس مرتبہ سینہ ٹھوک کر سامنے اکر سر پہ چڑھ کر لڑنے اتے ہیں ۔ ادھا پاکستان کراس ائے ہیں اور ہم کھڑے تھے۔
پچھلی جنگ میں حملہ اور چھپ کے بیس بدل کر خودکش بن کر اتے تھے۔ اس مرتبہ سینہ ٹھوک کر سامنے اکر سر پہ چڑھ کر لڑنے اتے ہیں ۔ ادھا پاکستان کراس ائے ہیں اور ہم کھڑے تھے۔
وہ ہم ہیں
ہمارے رویے بتاتے ہیں کہ ہم نے جانا کدھر ہے، ہمارا راستہ کیا ہے ۔
اج صبح اک تصویر دیکھی آئی ایس آئی کے افسران کو شہید کرنے والے کی نماز جنازہ علاقہ والوں نے نہیں پڑھی ۔
کیا وہ پاکستانی تھے۔
اگر تھے تو پاکستان کے خلاف کیوں اٹھا؟
کیا وہ مسلمان تھے، اگر تھے تو جنازہ کیوں نہیں پڑھا؟
پوری دنیا کہتی رہی کہ بس کردو بس کردو۔۔
ہم نے نہیں کی۔فیصلہ کرنا پڑے گا۔
اندھے کو نہ مارو اندھے کی ماں کو مارو،،،
وہ جو مرا وہ اسی مٹی کا بیٹا تھا، اس نے جن کو مارا وہ اسی مٹی کے بیٹے تھے، دونوں اسی وطن میں پیدا ہوئے اور اسی وطن میں مر گئے ۔
دونوں طرف ہم ہی تھے،ہمیشہ سے دونوں طرف ہم نےمارا ہے اپنوں نے اپنوں کو ۔۔۔۔
جو یہاں پیدا ہو ، آئین پاکستان کی ذمہ داری تھی اس کی تعلیم اسکا روزگار اسکا اچھا ماحول اسکی خوراک ۔۔
کیوں موت کی راہ پر چلنے دیا اس کے اہل علاقہ تب روکتے جب پہلا سبق پڑھ تھا موت کا اس نے تو ہمارے تین بیٹے بچ جاتے ۔
کسی نے اس مٹی کہ اونر شپ نہیں لی سب نے دیہاڑی لگائی یہ اس مٹی کا جواب دے رہی ہے ۔
پاکستان اللہ کے رازوں میں سے راز ہے، یہ راز ناقدروں کے لیے نہیں تھا ۔
واپس لیا جا رہا ہے ۔
ہم نے اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے غیر ملکی افراد کو کمان دے دی ہے ۔
جنکے جہاز پہلی گولی چلتے ہی پرواز کر جائیں گے۔
جنگل کا قانون
پاکستان میں جنگل کا قانون نافذ ہے ۔
جنگل کی طرح رد عمل دے دیں گےتو بچیں گے ۔
میڈیا بیچارہ مردارخوری میں مصروفیت کے سبب دکھا نہیں سکا سوات والوں نے جنگل کے جنگلی جانوروں کو شکارگاہ سے بھگانے کے لیے یہی کیا۔
ہم کھڑے تھے ،لیکن انکو پتہ تھا۔
انکو پتہ تھا کہ شام ڈھلتے ہی دروازے پر ایک زوردار دستک سن کر جوان بیٹیوں کے باپ پر کیا گزرتی ہے اور کب موت دوست اور زندگی ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے شہر کے چوک چوراہوں گلیوں بازاروں میں اسقدر آہ و فگاں کی اس قدر چیخے روئے اور درندے ان سے منہ موڑ گئے ۔۔۔
سوات اور مالاکنڈ والوں نے پنجابیوں کی عیاشی کے لیے مرنے انکار کر دیا،
بغیر اک گولی چلائے وہ کر دکھایا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا،
کھبی سنا ہے لوگ کسی کسی ملک میں اپنی ریاست سے امن کی فریاد کر نے لگیں۔
چٹے دن پڑنے والے چوروں کے پاوں نہیں ہوتے اور درندے شور سے گھبراتے ہیں۔
ہم گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے والوں کی نسل ہیں آج مرنے والوں کی تصویریں دکھا کر امداد پر تکیہ ہے۔
بیرونی اثاثے گئے اندرونی شروع ہیں ملت ٹریکٹر بند کرکے باہر سے 2000 ٹریکٹر منگوا رہے ہیں ۔
دوایاں خود بنا نہیں سکتے منگوانے کے پیسے نہیں ہیں۔
اور غیر ملکی حاکم افراد کے لیے BMW آرہی ہیں ۔
خیبر میں عرصہ سے باقاعدہ ہفتہ وار کوئی ہفتہ بغیر خون کے خالی نہیں گیا ۔ اور ہم کھڑے تھے ۔
جنگ بقا کی ہو تو چڑیا باز سے لڑ جاتی ہیں۔
جن کووں نے گھونسلے شاہ بلوط کے اونچے درختوں پر بنا دیے ہیں
ان سے امید یں کیا رکھنی ۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی غلطی
سراجالدولہ نوجوان نا تجربہ کار تھا، جنگ میں اس کے پاس 50000 سپاہی توپیں ہاتھی اور سوار تھے وہ تین ہزار انگریزوں سے نہیں ہارا تھا ۔
50000 ہزار اور 3000کا مقابلہ تھا ۔ اتنی بڑی فوج کا کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔ اس کی سیاسی غلطی نے اسکو جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہر ادیا تھا۔
سیاسی غلطی کی قیمت کئی ہزار جانیں ہوتی ہیں۔
اور وہ غلطی میر جعفر نہیں تھا۔
بانو قدسیہ صاحبہ کا ادھورا کام
بانو قدسیہ صاحبہ کی کتاب ادھوری ہے ۔ راجہ گدھ کسی طریقہ سے مکمل کروائیں ۔
حرام خوری نسلوں کی سوچ اپا ہج کر دیتی ہے ۔
ہر قدرتی آفت کے بعد لاشیں چوک چوراہوں پر رکھ کر دنیا والوں سے پیسے مرنے والوں کے نام پر لے کر کھانا کہاں تک نقصان کرتا ہے، نقصان کا پتہ چلے تو کوئی سدباب ہو۔
مقابلہ بڑا زبر دست ہے، دیکھتے ہیں۔ آخری فگر کیا رہتا ہے
قدرت سیلاب بنجر زمین موسمیاتی تبدیلی سے کتنے مریں گے۔
جو یوتھیا مار مہم شروع کی ہے اس میں کتنے مریں گے۔
بھگا کر دوڑ کر تھکا کر یہ شکاری لوگ کتنے ماریں گے۔
ہم کھڑے رہیں گے۔
ہمارے بچوں کی روٹی چھین کر انڈسٹری بند کر کے غیر ملکی افراد کے کتوں کی خوراک کھولی گئی اور
ہم کھڑے تھے ۔ ۔۔۔
امریکی امداد لینے کو مرے جا رہے ہیں، پھر ڈروں آئے گا،
تو ہم کھڑے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل میں رہنا ہے تو سب سے برے شکاری بن جاو
اور سب سے بڑا شکاری شیر نہیں ہے