پچیسواں گھنٹہ

پاکستان اپنے 25 ویں گھنٹے میں داخل ہو چکا ہے ، اب بات ہماری نہیں آئندہ کی نسل کی ہے کہ انہوں نے ہم سے کیا سبق سیکھا کنٹرولڈ ڈیفالٹ نہ کر کے جس اندھی کھائی کی طرف رخ کیا اب سپیدہ سحر کی طرح سامنے آنے والا ہے

کیا پاکستان اس مرتبہ حالات سے نمٹ پائے گا؟

عام طور پر جب کوئی ملک مالی مشکلات میں پھنس جانے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے ،تووہ اس ملک کا ساتھ دینے سے پہلے ملکی معاشی حالات دیکھتے ہیں ۔ اس سے طریقہ کار طلب کرتے ہیں ۔

کیسے اپنے معاملات درست کرے گا۔
کس طرح اپنے معاشی حالات بہتر کر سکتا ہے ۔

صورتحال کے مطابق اس کا حل تلاش کرتے ہیں ۔

عالمی ماہرین پروگرام ڈیزائن کرتے ہیں ۔
اور اس ملک کو قرض کی رقم جاری کر دی ہے۔
دنیا کے تمام ادارے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ اپنے قرض صرف اس لئے نتھی کر دیتے ہیں ،کیونکہ دنیا میں ائی ایم ایف پروگرام واحد پروگرام ہوتا ہے۔۔

مالی معاملات میں قرض دیتے ہوئے شرائط عائد کرکے ملک کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

آئی ایم ایف قرض دیتے ہوئے ہوئے نہ صرف ڈائریکشن بتاتا ہے، سمت متعین کرتا ہے، بلکہ کہ اس کو نافذ بھی کرواتا ہے ۔
اس لیے جب کوئی ملک ائی ایم ایف پروگرام میں ہوتا ہے توپوری دنیا کے مالیاتی ادارے اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اس ملک کو قرض جاری کر دیتے ہیں۔

اپنے وطن کا باوا آدم ہی نرالاہے۔۔۔

ہمیں جس نے بھی غیرت دلانے کی کوشش کی، جس نے کام کروانے کی درست سمت بتانے کی کوشش کی۔۔۔

ہم نے اسے اپنا دشمن مانکر جان کر گردان کراس سے جان چھڑوا کر ہی دم لیا۔

پاکستان نے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل پیرا ہو کرحالات بہتر کرنے کی کوشش نہ کی ہے۔
جس کی وجہ سے اس مرتبہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر شدید عدم اعتماد کرتے ہوئے۔
وزیراعظم پاکستان کی نویں ریویئن کی درخواست مسترد کردی ہے۔
آئی ایم ایف نے شرط عائد کی ہے، کہ اس مرتبہ شرائط کو ایڈوانس میں پورا کیا جائے۔
ہمارے ملک کے معاشی ماہرین نے اس مرتبہ آئی ایم ایف سے جو وعدے کئے تھے۔

ان میں میں وہ آخری امداد جو اپنی عیاشیوں، نا اہلی اور کرپشن کے بدلے میں احسان کے طور پر سبسڈی کے نام پر دیتے ہیں ۔ختم کرنا شامل ہے۔

آئی ایم آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ اس مرتبہ گیس اور بجلی کی قیمت بڑھائے بغیر کوئی ریویو نہیں ہوگا۔
ڈالر کو فری چھوڑنا پڑے گا۔ تاکہ مارکیٹ قیمت کا ترین کرے ۔
سابق وزیراعظم عمران خان پر اعتراض تھا کہ وہ یوٹرن کے پریشر میں آئی ایم ایف کے پاس لیٹ گئے
جس کی قیمت پاکستان کومعاشی دباو کی صورت میں بھگتنا پڑی۔
اسی طرح موجودہ وزیر اعظم نے الیکشن میں نہ جا کر جس گرداب میں پاکستان کو پھنسا دیا ہے، اب شاید دوبارہ سے قائد اعظم کو خود ہی آنا پڑے گا ۔
سعودی عرب ،امارات اور چین منہ موڑ چکے ہیں۔
جس امریکہ کی خوشنودی درکار تھی۔
اس نے ہماری دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ، مدد نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ہم کیوں ضروری ہیں دنیا کے لیے ۔۔

کسی ایک چیز میں خود کفیل نہیں، کوئی ایک چیز ہماری اس معیار کی نہیں ہے کہ دنیا کو ہماری ضرورت ہو ۔
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ
بی ایم ڈبلیو گاڑیاں امپورٹ ہوتی رہیں گی۔
کراچی سے طیارے بھی ٹچ ڈاون ہوتے رہیں گے ۔
اشرافیہ کی عیاشیاں جاری رہیں گی۔
قیمت اگر کسی کو برداشت کرنا ہے تو عام آدمی ۔
پاکستان کے غریب مزدور عوام ۔۔۔۔۔

ایک عدم استحکام کے حامل ملک کے پاس ایٹم بم کا احساس دنیا کو خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔
اب دنیا نےاپنا ڈر ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے
یا ہمیں اپنے معاملات کو درست کرنا پڑے گا
یا آخری قیمتی چیز فروخت کرنا پڑے گی۔

ایٹم بم کے علاوہ شکیل آفریدی کی بھی اچھی قیمت ملے گی۔ یا ہمیں فوری طور پر جنگ میں جانا پڑے گا

جنگ ہی آخری حل ہوتا ہے تمام غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا

چوائس ہماری ہے کہ جنگ میں جاتے ہیں یا آئی ایم ایف پروگرام میں ۔۔۔

اور جنگ اس مرتبہ مغربی باڈر پر ہوگی۔۔

عزوہ ہند کے لیے حالات تیار ہیں ۔۔۔

سوال کیا جاتا تھا پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟


جواب : جو دیا تھا واپس لے لیا ہے ۔ اب رہ کر دکھاو ۔

Naveed

I am an ordinary man.

Related post