سچ کی سچائی
سچ کی سچائی بھی اک بھید ہے ، سچائی صرف الفاظ کی نہیں ہوتی ۔ فلسفہ کی بنیاد ہی سچائی کو جاننے کی کوشش ہے۔
سچائی اپنے انددایک غیر معمولی طاقت رکھتی ہے۔ ہم ہمیشہ مکمل سچائی کو قبول نہیں کرتے اور اسی لیے روحانی طاقت سے محروم ریتے ہیں۔
سچ کیا ہوتا ہے ؟
صداقت کی تعریف بہت سادہ لگتی ہے، لیکن تمام فلسفی حقیقت کی تلاش میں ہی سرگرداں رہے ، اگر صرف باتوں کو ہی سچائی مانا جاتا تو تلاش جاری نہ رہتی ۔
کسی بھی پیش آمد حقیقت کو اس کی اصل شکل میں درست نیت کے ساتھ بتانا، سنانا یا قائم رکھنا سچ کی تعریف میں آتا ہے ۔اس کے علاوہ کسی شے وجود کی حقیقت جان لینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
کیا سچائی صرف الفاظ تک ہی محدود ہے؟
سچ کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہی ہیکہ اس کو صرف زبانی باتوں تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ سچائی الفاظ سے زیادہ کردار اور اعمال میں اہمیت کی حامل ہے۔ زبان تو خالص رہیے لیکن اعمال اور کردار اس پر عمل نہ کریں تو یہ بھی مکمل صداقت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے باادب با نصیب
کیا صداقت کا روح کے ساتھ بھی کوئی تعلق ہے؟
سچ بولنا عام بات نہیں،سچی بات کرنا اپنی ذات میں اس قدر طاقت ور ہیکہ انسان کو دنیا کی تمام برایئوں سے نکال دیتا ہے۔
سچ صرف الفاظی تک ہی محدود نہیں ہے اورنہ ہی اسکی کی طاقت صرف ثواب تک ۔۔۔۔
بنیادی طور پر سچ بغیر کمی یا اضافہ کیے واقعات حقائق اور معاملات کا بیان ہے ۔
کسی معاملہ کو جانتے بوجھتے چھپانا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے ۔
ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے تو صدداقت کا رد عمل کیا ہے ۔؟
کوشش کرتے ہیں سچائی کی حقیقت کو جاننے کی ۔۔۔۔
سچ کا سچ
سچائی کو جان لینا آسان نہیں ہوتا خاص کر تب جب ہم اپنے آپکو دھوکہ میں رکھ کر بہتری کی طرف نہیں جانے دیتے، صداقت ایک انتہائی کڑوی گولی ہے جسکو نگھلنا بہت مشکل ہے لیکن اس کے اثرات بہت دیر پا اور زندگی بدل دینے والے ہیں۔
کسی بھی پرانی عمارت کی جگہ نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو گرانا پڑتا ہے ،اسی طرح اصل حقیقت کا سامنا کر کے خود اپنی آنا کو تؤڑ کر ہی روحانی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
جھوٹی امیدیں اور پرانے تعلقات وہ زنجیریں ہیں جو انسان کو نئی دنیا کی تخلیق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
سچ بولنے کے فوائد
دنیا کے تمام الہامی اور زمینی مذاہب میں سچائی کوایک اچھی خوبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔
ہر نیکی ہماری روح کے لئے طاقت کا باعث بنتی ہے اور روحانی طور پر مضبوطی اور سرشاری لاتی ہے ۔
حق گوئی روح کے لیے غذا کی سی اہمیت کا حامل ہے۔
بد قسمتی کی بات یہ ہوئی کہ ہم صرف کتابی الفاظی سچائیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہماوی نیکیاں ہماری عبادت سب کتابوں کی حد تک ہی موجود ہیں۔
جو شخص غنی ہو اس پر تنگی نہیں آسکتی۔۔
اسی طرح سچ کا اصل فائدہ تب ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جب کتابوں سے نکل کر اسکو زندگی میں نافذ کریں ۔
حقیقت بیان کرنے والے پر لوگ اعتماد کرتے ہیں۔
صداقت سے انسان بدی اور برائی سے دور رہتا ہے۔
لوگ ایسے فرد سے جڑنا پسند کرتے ہیں۔
سچ بولنے والے فرد کا معاشرہ میں وقار اوراعتماد ہوتا ہے ۔
سچ انسان کو سیدھا کھڑا ہونا سکھاتا ہے ۔ خود اعتمادی لاتا ہے ۔
اور یقینی طور پرسب سے بڑھ کر نئی راہیں تخلیق کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
سچ بولنے والا نسان لا محالہ اپنے انداز و اطوار کو اچھائی کی طرف مائل کرتا ہے۔
سچ بولنے والا شخص اپنے قول و قرار میں پورا اترنے کے لیے اپے وعدے دعوے اور ہر موقع پر محنت سے اندگی کی تمام روش ہی مائل با ضیر کر لیتا ہے۔
سچ انسان کوعزت اورمقام کی راہ گامزن کرتا ہے ۔
اس کائنات میں ہر چیز ایک دوسرے سے منسلک ہے ایک عمل کرتے ہی اس عمل سے منسلک عوامل اثر پزیر ہونے لگتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص صرف اچھا سوچتا ہے تواسکی سوچ اس کے لئے اچھائی ڈھونڈ کر لاتی ہے ۔
محبت کرنے والے اور دل میں بغض نہ رکھنے والے شخص سے تمام کمزوریوں کے باوجود محبت آملتی ہے۔
سچ کی اہمیت
سچ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی بھی معاشرہ کو تباہ حالی سے واپس لا سکتی ہے۔
تمام برائیوں کو بڑھاوا دینے والا عمل جھوٹ ہے۔
اور یہیں سے پہلے فرد پھر خاندان اور معاشرہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتےہیں۔ نہ تو سچ صرف الفاظ کا ہوتا ہے اور نہ ہی جھوٹ، اگر ایک لفظ نہ بولیں زبان ے نہ کہیں لیکن جانتے بوجھتے جو نہیں ہیں وہ بن رہیں تو بھی جھوٹ کی بد ترین قسم میں آتا ہے۔
سچ اس قدراہم ہے کہ اگر معاشرہ میں ہر برائی ہو لیکن سچائی کا دامن تھام لیں، توحیران کن طور پر ہر چیز درست ہونے لگتی ہے، کوئی منافع خور کیسے سچ بول کرناجائز منافع خوری کرےگا۔
جعلی ادوایات کیسے فروخت کر پائے گاالغرض سب کچھ بدل جاتا ہے۔
اسی طرح فرد کی زندگی پر اثرت رکھتا ہے۔
جس معاشرہ میں صرف سچ باقی ہو وہ معاشرہ کبھی تباہ نہیں ہوتا۔
سچ کیسے بولا جائے؟
سچ کو ہمیشہ ایسے بولنا چاہیے جیسے کہ وہ ہے، اور اس کو اعمال اور کردار کےساتھ بولنا چاہیے۔
کردار بدلنے کا جوش آتے ہی، ہم جب عمل کا آغاز کرتے ہیں تو درحقیقت ہم اپنی بہتری سے زیادہ دوسروں کی زندگی کو جہنم بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
بغیرموقع اور بغیر ضرورت جھوٹ سے بدتر ہوتا ہے،
بلا ضرورت سچ فساد ہوتا ہے۔
سچائی کو سچ کی نیت سے بولا جانا چایئے کسی کو ذلیل کرنے، یا کوئی غلط نیت رکھ کر بولا گیے الفاظ نہ تو سچائی ہیں اور نہ اصل فائدہ حاصل کرنے دیتے ہیں۔
نہ ہی مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن ہو گا۔
بلکہ انسان عزت کی جگہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔
ہم جب لوگوں کو اپنے الفاظ سے تکلیف دے چکتے ہیں،
تولوگوں کی طرف سے آنے والی تنقید کوروکنے کے لیے اپنی برائیوں کمیوں کوتاہیوں کا اعلانیہ اقرار کرتے ہیں۔
اپنے پر ہونے والی تنقید کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس میں بھی اصلاح کا پہلو نہیں ہوتا اور ہماری روح اس کے فوائد سے محروم رہتی ہے۔
سچ کی اصل طاقت تب ہی محسوس کی جا سکتی ہے، جب حقیقت کو اپنے اند اترنے دیں،ظاہر اور باطن ایک ہو جایئں ۔
پہلا سچ
زندگی میں ایک بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ پہلا سچ بولنا ہی مشکل ہے , لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
پہلا سچ ہمیشہ بلند جذبے کے ساتھ بولا جاتا ہے , انسان کسی شخص نظریہ یا واقع سے متاثر ہو کر بولتا ہے۔
اور اس وقت انسان ہر مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
لیکن میرا ماننا ہے اصل مشکل اس کے بعد سامنے آتی ہے – اصل امتحان اس کے بعد ہے۔
دوسرا سچ
پہلا اقرار، غلطی کمی کوتاہی اور معاشرت جرم کے لیے عام طور پر معافی کا باعث بنتا ہے, لیکن دوسری سچ بولنے کے لئے انسان کو اپنے اندر کچھ نہ کچھ بہتری کرنا پڑتی ہے۔
کرنا قائل پڑتا ہے ایک ہی غلطی یا کوتاہی پر دوبارہ وہی عمل اقرار کو مشکل بناتا ہے ہوتا ہے ۔
پہلا سچ بول کر لی گئی معافی کی جگہ آپ اسی غلطی کو لیے دوبارہ نہیں جا سکتے۔
یہیں سے فیصلہ ہوتا ہے کہ انسان نے آئیندہ سچ پر قائم رہنا ہے ،یا جھوٹ کی طرف لوٹ جانا ہے۔
سچائی کی طاقت
آدھا سچ
ہر کوئی پریشان ہیکہ ملاوٹ والی اشیا فروخت ہو رہی ہیں۔
لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کی غفار دودھ میں پانی ملتا ہے۔
ہر کوئی پریشان ہیکہ منافع خوری ہوتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے کہاکہ اسلم گندم سٹاک کرتا ہے۔
کبھی مولانا صاحب نے کہا کہ چئیرمیں صاحب بظاہر کوی کام نہیں کرتے لیکن مسجد پر 10 لاکھ لگائےہیں۔
کہاں سے ائےہیں پوچھا جائے۔
جس دن پوری حقیقت بیان کی جانے لگی گے معاملات حل ہو جائیں گے۔
مکمل اور حتمی سچ
انسان کے پاس ایک ایسا آلہ ہے جو ظلم غلطی اور ذیادتی پر اسکو ملامت کرتا ہے ۔
انسان بڑی مشکل سے جھوٹ کا غلاف دے کر اسے سلاتا ہے۔
سب سے بڑا سچ وہ ہے جسے لفظوں اور آواز کی ضرورت نہیں ہوتی جسے ہم خود سے اور اپنے دل کے ساتھ بولتے ہیں-
کوئی بھی گناہ کرتے ہوئے جرم کرتے ہوئے برا کام کرتے ہوئے ہمیں اپنے دل کو بہانہ مہیا کرنا ہوتا ہے۔
حق اور باطل واضع ہے اور اس میں حیل و حجت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک تجربہ کر کے دیکھیں، اپنے اردگرد تمام افراد سے سیکھنے کی غرض سے پوچھیں انکے غلط افعال کے متعلق۔
میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تلاش کر پایا ہوں، جودیدہ دانستہ صرف اس جرم کرپشن کرے کہ واقعی چاہتاہو،
معاشرہ ایک دوسرے کو ڈھال برائی کو ختم کرنے اور اچھائی کو کم کرنے پر بنا ہے۔
صرف سچ میں اتنی طاقت ہیکہ ایک مرتے ہوئے معاشرہ کو زندہ کر دے۔
نسخہ کیمیا
سائنس نے ثابت کیا ہے کہ انسان دماغ سے سوچتا ہے
جبکہ قرآن میں بار بار لفظ قلب استعمال ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
سینوں کو نور سے بھرنے کا اشارہ ہوا ہے
سائنس نے تو آ پنے موقف ثابت کر دیا ہے قرآن کے الفاظ پر کبھی غور کریں
کہیں اس دل سے
اے دل ہے گناہ لیکن کر رہا ہوں
اے دل ہے حرام لیکن کر رہاہوں
اے دل ہے ظلم لیکن کر رہا ہوں
پھر اللہ کا عطا کردہ یہ سافٹ وئیر کیسے واپس راہ راست پر لاتا ہے ، جتنا اس کو استعمال کرتے جائیں گے اتنا ہی راہنمائی کرتا جائے گا۔
صرف ایک اسی دل کی آ واز کو دبانے کے لیےہم اپنے آ پکو بہانے بنا بنا کر گناہ کی طرف مائل رکھتے ہیں۔