لیڈر بمقابہ سیاسی لیڈر
دنیا میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالبعلم کو لیڈر تسلیم کر لیا جائے ۔ لیڈر کو اپنا آپ ثابت کرنا پڑتا ہے ۔میرا ذاتی نکتہ نظر ہے کہ پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہیکہ لفظوں کے معنی غلط تشریح کر دیئے گئے ہیں۔ لیڈر اور سیاسی لیڈر کے معی کی تفریق ختم کر دی گئی ہے۔
لیڈرکی تعریف
لیڈر کا لفظ 14 صدی میں منظر عام پر آیا اور لیڈ کرنے، راہنمائی کرنے والے کو لیڈر کہتے ہیں ۔ لیڈر کی خاص صفت اگے رہ کر راہنمائی کرنا ہے۔ لیڈ کرنے والے کو راستہ پیدا کرے والے ذمہ داری لیے والے کو کہتے ہیں۔ مشکلات میں راستہ بنانے والے اور سب سے اگے چلنے والے کو لیڈر کہتے ہیں ۔
لیڈر ذمہ راری لیتے ہیں پاکستان میں کسی ے آج ےک ذمہ داری لی؟
سیاسی لیڈرکی تعریف
سیاسی لیڈر دولفظوں کو جوڑ کر بنا ہے۔
سیاسی / سیاست
لوگوں کو رہنے کے لیےآاپس میں متحد رہنے کے لیے ، ایک دوسرے سے بہت سے معاملات طے کرنا پڑتے ہیں، معاہدے کرے پڑتے ہی ذات برادری قصبہ فیصلے اور اصول طے کرنے پڑتے ہیں۔
اس کو سیاست کہتے ہیں اور جو لوگ زیادہ تر ان کاموں بمیں مصروف رہتے ہیں معاشرہ کے فائدے کے زیادہ سے زیادہ بہتر کام کرتے ہیں وہ سیاست دان کہلاتے ییں۔
لیکن سیاسی لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام کا کل وقتی تنخواہ دار ملازم ہو، عوام کے مفادات اور معاشرہ کی فلاح کے لیے کام کرے۔اور اس کے عیوض تخواہ لے۔
لیڈر کی مزید دو اقسام ہی،
زمانہ جنگ کے لیڈر
پہلی قسم انکی ہے جو مشکل حالات میں پروان چڑھتے ہیں،حالات کا رگڑا کھاتے ہیں۔ جبر سہتے ہیں ڈٹے رہتے ہیں،
گھر بار جوانی خاندان لٹا کر لیڈر کا خطاب پاتے ہیں ۔
یہ لوگ حالات کی بھٹی میں اتنے تپ چکے ہوتے ہیں۔ کہ ان پر آنکھیں بند کرکے انکی قوم اعتماد کرتی ہے۔ یہ لوگ قربانی دینا سیکھ چکے ہوتے ہیں ۔ ان پر بشری کمزوری شاز ہی کبھی غلبہ پاتی ہے۔ دور کی سوچ کے مالک،یہ لوگ راستہ ساز ہوتے ہیں ۔
زمانہ امن کے لیڈر
دوسری قسم کے لیڈر حالت امن کے لیڈر ہوتے ہیں ۔
ان لیڈروں نے حالات کا وہتلخ رخ نہیں دیکھا ہوتا ۔ آسودگی اور خوشحالی ان کو کندن نہیں بننے دیتی ان کے فیصلے آسودہ حال لوگوں کے فیصلے ہوتے ہین ۔
ان کو درست ڈگر پر رکھنے اور بشری کمزوریوں سے بچانے اور فیصلوں کو کسی یک سمتی سوچ سے۔بچانے کے لیے، ان کے اردگرد قانون کی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے۔
ایس او پی اور کمیٹیوں کے نام پر پہرے دار کھڑے کر دیے جاتے ہیں، کوئی بھی کاغذ اس تک پہنچنے سے پہلے کئی جگہ فلٹر ہوتاہے۔
قوم جاہل ہو اور لیڈر دوراندیش ہو تو پاکستان بنتا ہے، 1947 والا۔
لیڈر قیمتی اثاثہ ہوتا ہے
لیڈر کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ۔ لیڈر کے ایک قدم کئ قیمت کئی نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔
لیٖڈر کے ساتھ بہت سے لوگوں کے جذبات منسلک ہوتے ہیں اس لیئے لیڈر کو سکیورٹی دینی پڑتی ہے۔
ورنہ محترمہ بینظیر کی شہادت پر ہونے والا نقصان ابھی ماضی قریب کی بات ہے۔
لیڈر مستقبل ساز ہوتا ہے اور اس کے فیصلوں کے اثرات اس تک پنچتے رہیں اس کے لیے لیڈر کو جمہوری نظام میں عوام کے سامنے پیش ہونے کا پابند بنا کر لوگوں کو بڑا نگران بنایا جاتا ہے۔
لیڈر کی مکمل کامیابی
جدید مینجمنٹ کی تعریف میں وہ شخص ناکام تصور ہوتا ہے۔
جو اپنا اچھا جانشین نہ دے سکے ۔
اس لیے تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سائنسی بنیادوں پر اس پہلو پر کام ہوتا ہے۔
سیاست میں بھی جانشین ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ دیا جلے گا یا نام مٹ جائے گا۔
لیڈر بے سمت اور محدود سوچ کا مالک ہو
اچھائی اور برائی میں فرق سمجھتا ہو
مستقبل نہ دیکھ سکتا ہو
تب بھی پاکستان بنتا ہے
آج کا
لیڈر کی تربیت
قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بننے والا شخص مکمل طور پر زمہ داری کے لیےتیار ہو، اس ذمہ داری کے لئے جو اس سے لی جانی ہے۔ یقینی بنانے کے لیے تربیت لازم ہے۔
چائنہ میں مسقبل کا صدر سب کو معلوم ہوتا ہے۔ اسکی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے۔
تمام بڑے ملکوں میں آئندہ کے حکومت کے امیدوار کو خاص حالات اور مسلسل ٹرینگ سے گزارا جاتا ہے ۔
۔کتابیں،تاریخ قوانین سب معاملات کا علم ہوتا ہے، اور پھر بھی قوانین اور ضوابط کی نگرانی سخت رکھی جاتی ہے۔
امریکہ میں صدر بننے والا شخص اقتدار کی راہداریوں میں جوانی گزار چکا ہوتا ہے، رولز آف بزنس اور معاملات اس کو ازبز ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود عہدہ پر بااختیار ہونے سے پہلےکئی کئ دن بریفنگ چلتی ہے تیار کیا جاتا ہے۔
ہم ہمیشہ سے لیڈر مار قوم ہیں،ہم نے پیسے لیکر اپنے لیڈر مروا کر اسی رقم سے مزاربنا کر رو رو کر محمد بن قاسم کو پکارا ہے۔
ہمارا لیڈر اور ہم
وطن عزیز میں لیڈد ہونے کے لیے کسی خوبی کی ضرورت نہیں ۔
ریسرچ، مینجمنٹ سائنس، ٹیم مینجمنٹ اور تمام جدید علوم سے جتنی زیادہ دوری ہو گی۔
اتنا ہی بہتر ہے۔ آج پاکستان کے امیدوار برائے صوبائی اور وفاقی اسمبلی جنکو مقدس ایوان کہا جاتا ہے اور ہمارے وزرا اور ہماری مستقبل کی اپروچ آئینہ دکھانے کو کافی ہیں ۔
صرف اچھا مداری گر ہونا ضروری ہے ۔
جھوٹ روانی سے بول سکے اخلاقیات بالکل نہ ہوں۔
سیاسی مخالف کی قردار کشی کرتے عوام کا جنسی ہیجان ابھار کر جتنی گندی سیاست کرے گا اتنا کامیاب۔
آج کی دنیا کا سب سے بڑا سچ ٹریننگ ہے،گھاس کاٹنے سے لیکر صدارت تک
صرف اورصرف جدید بامقصدوژنری ٹریننگ ۔۔۔
سیاسی کمپین
ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی کیپمین بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
آ نے والے وقت کی پالیسیاں بتائی جاتی ہیں،اور پچھلی حکومتی مدت کا دلائل کے ساتھ جوب دیا جاتا ہے۔
درپیش خطرات،مسائل اور حالات کی بابت ریسرچ کے حوالے سے جواب دینے پڑتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں سب سے آسان کام سیاسی کمپین ہے۔ مخالف کی قردار کشی ہوائی نعرے چند لارے اور
واہ بھئی واہ ۔۔۔۔
جنکے بال اسمبلی میں بیٹھے سفید ہوئے، وہ بھی کسی غیر مرئی طاقت سے گلے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔
اس وقت 3 بڑی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں دو پارٹیوں نے اپنی اگلی نسل کو سیاسی میدان میں اتارا ہے۔
اور کمپین یا سیاسی تیاری دیکھیں۔۔۔
حالات ملکی وزیر اعظم نہیں بلکہ پیر طریقت رہبر شریعت کی تلاش لگتی ہے۔
کل تک جن دو پارٹیوں اور ان کے سپورٹرز کے جنازے بھی الگ تھے آج شیر و شکر،عوام کو جاہل رکھنے اور نفسیات کھیلتے آڈیو ویڈیو سے ہوتے گوگی گوگی کی گردان کرتے تان پنکی پر ٹوٹتی ہے۔
اور یہاں ہمار معاشرہ کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتا ہے،
روزانہ درجنوں لوگ مخالف پارٹی کی خواتین کو نتہائی گھٹیا نام دیتے ہیں الزام تہمت لیکن کوئی
اک بار بھی نہیں روکتا۔
اگر کیس ہے تو گرفتار کریں ورنہ تہمت پر ان کے خلاف کاروائی ، لیکن کیسے ہو ۔۔۔
پاکستانی سیاست پر چھائی رہنے والی دو پاٹیاں آج الیکشن میں جانے کے لیے جو
بیانیہ بنا رہی ہیں وہ ہے
نواز شریف کی بیٹی یہاں ہے،نیازی کی کہاں ہے۔
کوئی انکو یاد دلا دے 30/35 سال میں ایک پوری نسل کو، عقل سے عاری اور اخلاق باختہ بنانے میں کیا کسر رہ گئی تھی۔
جو تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں۔ الکشن کپین اور تھرڈ کلاس جنسی ہیجانی کتابوں کا لکھنے والا آج کل ایک ہی ہے

لیڈر کی جو تعریف ہم نے بنا لی ہے اس پر تو قائد اعظم بھی پورے نہ اترتے
لیڈر کو ہی عوام کو اپا رویہ دلا پڑے گا ، شائد بات جائے۔