زندہ ہاتھی لاکھ کا مردہ سوا لاکھ کا

وطن عزیز پاکستان میں اردو کہاوت بہت مشہور ہے۔

“زندہ ہاتھی لاکھ کا مردہ سوا لاکھ کا”

اس محاورے کی کبھی تشریح سمجھ نہ آسکی کہ کیسے کوئی ہاتھی یا انسان مرنے کے بعد قیمتی ہوتا ہے۔

زندہ ہاتھی لاکھ کا اورمردہ سوالاکھ کا

 پاکستان میں حکومت  ، سیاست  معاشرت ، معاشیات اور ریاست کا تمام تر دارومدارہمارے فوت ہونے والے بہن بھائیوں اور دوستوں پر ہی ہوتا ہے ۔,مثال کے طور پرافغان جہاد سے شروع ہونے والا کاروبار اب تک جاری ہے.

 کبھی ہم نے افغانستان میں مجاہدین بھیجے ان کے بد لے ڈالر لیے ، کبھی طالبان کی سرپرستی کرکے کے لوکل فائدے حاصل کیے۔

یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے دنیا نے پاکستان کی طرف  ڈالروں کا دریا کھول دیا ہے۔ دنیا کو خطرہ حقیقت لگنے لگا ہے کہ ہمارے ہتھیارکسی بھی وقت شدت پسندوں کے پاس جا سکتے ہیں۔

پولٹیکل سائینس کے طلبا جانتے ہیں کہ سیاسی غلطی ہو یا کسی ڈکٹٹرکو تحفظ دینا ہو۔

 جنگ ہی سب سے موثر ہتھیار ہے۔ 

طالبان کو واپس پاکستان آنے کا موقع دیکرنئی جنگ کی راہ ہموار کر کےحکومت نے اسی سوچ کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے ۔

آج تک کسی قدرتی آفت کے نقصانات کی روک تھام کے لیے  ایک اینٹ نہ رکھ کر ہم نے اپنی پرانی روش  پر چلتے رہنے کا عزم کیا ہے۔

  پاکستانی عام آدمی زندہ تو شاید پاکستان اوراشرافیہ کے لئےکارآمد ثابت نہ ہوا،لیکن مرے ہوئے پاکستانی کے عیوض ڈالر ملتے رہیں گے۔اسی  لیئے نہ تو کوئی تعلیمی نظام بہتر کرنے پر توجہ دیتا ہے نہ معیار زندگی اسی لئے اب تک تمام قسم کی انڈسٹری کو خام مال روک کر بند کر دیا گیا ہے۔

چولستان کا قحط

چولستان میں قحط پڑے ،ٹڈی دل لشکر پاکستان کی فصلوں پر حملہ کریں ،ہم نے ہر چیز کو کیش کیا۔ چولستان میں بھوک سے مرتے بچوں کے لیے بنے فنڈ سے افسران کے دفتر اور گاڑیاں آتی رہی۔

سیاسی دربار

 بھٹو صاحب کی پھانسی کے  بعد ایک پارٹی کی سیاست کا مرکز و محورانکا مزاربنا،تو ضیاء الحق صاحب کی شہادت کے بعد بعد دوسری پارٹی کو بھی ایک شہید میسر آ گئے بعدازاں بے نظیر صاحبہ کی تصویر پر پھول چڑھا کرانہیں بھی سیاسی مقاصد کے لیے زندہ رکھا گیا۔ ارشد شریف کو ایک تیسری پارٹی کیش کروانے کی کوشش میں ہے۔

پاکستان کے سیلاب

سیلاب ہمیشہ آتے رہے ہیں، قیام پاکستاب کے بعد پہلا بڑا سیلاب 1950 کا تھا اس کے بعد 1955, 1956, 1957, 1959, 1973, 1975, 1976, 1977, 1978, 1981, 1983, 1984, 1988, 1992, 1994, 1995 اور2010 تک اور پھر ہر سال ہم ڈوبتے رہے ہیں۔ اس سیلاب کے ساتھ ہونے والا نقصان شاید کئی سالوں کے بعد بھی پورا نہ ہو 2022 میں آنے والاسیلاب پہلے آنے والے سیلابوں سے مختلف تھا،لیکن اس دفعہ دنیا نے پاکستان کی طرف اس مدد کا ہاتھ نہ بڑھایا، جس کی توقع  کی جا رہی تھی جس کی وجہ پاکستانیوں کے روئیے اور نیا رخ  متعین کرنا تھا۔

پاکستان کا زلزلہ 

   زلزلے( 2005) نے ہم پر یہ راز کھولا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس طریقہ سے کمائی ممکن ہے۔اس کے بعد ہم نے ہرطرح کےسانحے پرانٹرنیشنل اداروں سے کبھی امداد کبھی قرض اور کبھی دیگر فوائد حاصل کیے. زلزلہ کی امداد سے ایک نیا شہر بن سکتا تھا، ہماری عیاشیوں کی نظر ہوئی۔

 بھکاریوں کا ایک خاص طبقہ اپنے فوت شدگان کو دیہات کے چوک میں رکھ کر اس کے کفن دفن کے لیے پیسے اکھٹے کرتے ہیں اور یقینی جنت کی بشارت۔ آزادی غلامی اور قومی غیرت سوچ میں ہوتی ہے ۔

آیندہ شہید، مقتول، جانبحق ہونے والوں کی قربانی کی قدر کریں ، انہی کی وجہ سے ہماری ہڈ حرامی اور عیاشی برقرار رہے گی۔

شائد یہی سب سے مناسب تشریح ہے

زندہ ہاتھی لاکھ کا مرا سوا لاکھ کا

مزید پڑھیں
کل کے ڈاکو آج کے لیڈر

کل کے ڈاکو آج کے لیڈر

ڈاکو اور لیڈر کا فرق کیا ہوتا ہے تاریخ کے صفحات سے ایک تلخ مگر…

ریاست مدینہ اورآرٹیکل چھ

ریاست مدینہ اورآرٹیکل چھ

مزید پڑھیں چندریان کا گیان ایک ملاقات کا واقعہ اس میں بھارتی سیٹلائٹ چندریان کم…

چندریان کا گیان

چندریان کا گیان

ایک ملاقات کا واقعہ اس میں بھارتی سیٹلائٹ چندریان کم اوازنہ پاکستانی ٹیکنالوجی سے کیا…

ایمرجنسیاں

ایمرجنسیاں

پوری دنیا میں ہر ملک نے ہنگانی حالات سے نمٹنے  کے لیے خاص قانون بنا…

دشمن کے بچوں کوپڑھانے والے

دشمن کے بچوں کوپڑھانے والے

ریاست مدینہ اورآرٹیکل چھ September 6, 2023 مزید پڑھیں چندریان کا گیان ایک ملاقات کا…

انقلاب فرانس کے چند  حقائق

انقلاب فرانس کے چند حقائق

انقلاب فرانس کوئی منظم انقلاب نہیں تھا، نہ ہی کوئی فکری یا نظریاتی تربیت اس…

Naveed

I am an ordinary man.

Related post